گیان واپی مسجد: آثار قدیمہ سروے کا عدالتی حکم، مسجد کمیٹی کا ہائی کورٹ جانے کا اعلان

مسجد کی انتظامیہ کمیٹی سے وابستہ سید یاسین نے کہاکہ وہ فاسٹ ٹریک کورٹ کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے، انہوں نے کہا کہ کمیٹی سروے کرنے کے لئے کسی کو بھی مسجد میں داخل نہیں ہونے دے گی

گیان واپی مسجد - کاشی وشو ناتھ / آئی اے این ایس
گیان واپی مسجد - کاشی وشو ناتھ / آئی اے این ایس
user

نواب علی اختر

نئی دہلی: اتر پردیش کے ایودھیا کے بعد وارانسی ضلع کے بنارس واقع کاشی وشوناتھ احاطے میں واقع تاریخی گیان واپی مسجد کے معاملے پر ایک نیا تنازع شروع ہو گیا ہے۔ جمعرات کو وارانسی کے سول جج سینئر ڈویزن فاسٹ ٹریک کی کورٹ نے گیان واپی مسجد احاطے کا آثار قدیمہ سروے کرانے کا حکم جاری کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک بار پھر تاریخی مسجد کا معاملہ سرخیوں میں آگیا ہے۔

گیان واپی مسجد کے حوالے سے ہندو فریق کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’متنازعہ ڈھانچے‘ کے نیچے 100 فٹ اونچے آدی ویشیشور کے باقیات ہیں۔ یہی نہیں مسجد کی دیواروں پر دیوی دیوتاؤں کی تصاویر ہونے کا بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ اس معاملے میں ہندو فریق کی جانب سے دائر کی گئی عرضی پر کورٹ نے آثار قدیمہ سروے کا حکم دیا۔ سروے کے اخراجات حکومت برداشت کرے گی۔


وارانسی فاسٹ ٹریک کورٹ کے جج آشوتوش تیواری نے یہ فیصلہ سنایا۔ کورٹ نے آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کو سروے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ اس کے لئے 5 افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے، جس میں اقلیتی برادری کے دو افراد کو بھی شامل کیا جائے۔

اس سے قبل 2 اپریل کو ہوئی سماعت کے دوران دونوں فریقین کی بحث کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا گیا تھا۔ ہریہر پانڈے کی جانب سے ایک پٹیشن دائر کی گئی تھی جس میں سروے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ عدالت کے حکم کے بعد ہریہر پانڈے نے کہا کہ اس فیصلے سے وشوناتھ مندر احاطے سے گیان واپی مسجد کو ہٹانے کا راستہ صاف ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے۔ ہم نے اس کے لئے لمبی لڑائی لڑی ہے۔ اسی دوران مسجد کی انتظامیہ کمیٹی سے وابستہ سید یاسین نے کہا کہ وہ فاسٹ ٹریک کورٹ کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے۔


انہوں نے کہا کہ کمیٹی سروے کرنے کے لئے کسی کو بھی مسجد میں داخل نہیں ہونے دے گی۔ یاسین کے بیان پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ہریہر پانڈے کا کہنا ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ سیکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ آئے گا، انہیں روکنا مسجد کمیٹی کے بس کے باہر ہے۔ اب سروے بھی ہو گا اور سچائی بھی سامنے آئے گی۔

ہندو فریق کا دعویٰ ہے کہ مغل بادشاہ اورنگ زیب کے حکم پر کاشی کا تاریخی مندر منہدم کرکے گیان واپی مسجد تعمیر کی گئی تھی۔ ہندو برادری اسے اپنا تاریخی مقام مانتی ہے۔ اسی کے ساتھ مسلمان اسے اپنا مقدس مقام مانتے ہیں۔ 1991 میں مرکزی حکومت نے تمام مذہبی مقامات سے متعلق موجودہ صورتحال برقرار رکھنے کے لئے ایک قانون بنایا تھا۔ حالانکہ ایودھیا کے بابری مسجد تنازعہ کو اس قانون کے دائرے سے باہر رکھا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت 1947 سے پہلے جو مذہبی مقامات جس حالت میں تھے، اسی حالت میں رہیں گے۔


انجمن انتظامیہ مساجد وارانسی کا کہنا ہے کہ گیان واپی مسجد کو بھی اسی قانون کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ اس مسجد سے کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ کرنا مرکزی حکومت کے قانون کی خلاف ورزی ہوگی۔ گیان واپی مسجد معاملے میں 1991 میں وارانسی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔ قدیم مورتی سوئمبھو لارڈ ویشیشور کی جانب سے بطور مدعی سومناتھ ویاس،رام رنگ شرما اور پریہر پانڈے اس میں شامل ہیں۔ مقدمہ دائر ہونے کے کچھ دنوں بعد ہی مسجد انتظامیہ نے مرکزی حکومت کی جانب سے بنائے گئے پلیسیزآف ورشپ(اسپیشل پروویزن) ایکٹ 1991 کا حوالہ دے کر ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ اس کے بعد الہ آباد ہائی کورٹ نے سال 1993 میں اسٹے لگا کر موجودہ صورتحال برقرار رکھنے کا حکم دیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔