والدین کے انتقال کے بعد بھی گلفشاں کی ہمت نہ ٹوٹی، جج بن کر دیوبند کا سر فخر سے کیا بلند

گلفشاں کو مبارکباد دینے والوں کا تانتا لگا ہوا ہے ۔ دیوبند، جسے دینی تعلیم کا مرکز قرار دیا جاتا ہے، وہاں نامساعد حالات میں آگے بڑھنے والی اس بیٹی کی کامیابی سے بچے بچیاں تحریک حاصل کر رہے ہیں

<div class="paragraphs"><p>پی سی ایس جے کے لیے منتخب گلفشاں / تصویر آس محمد کیف</p></div>

پی سی ایس جے کے لیے منتخب گلفشاں / تصویر آس محمد کیف

user

آس محمد کیف

اتر پردیش میں حال ہی میں جج کے امتحان ’پی سی ایس جے‘ کے نتائج کا اعلان کیا گیا ہے، جس میں دیوبند کی گلفشاں پروین نے کامیابی حاصل کر کے ایک بہت ہی متاثر کن پیغام دیا ہے۔ گلفشاں کے والدین کا انتقال ہو چکا تھا اس کے باوجود لڑکی نے ہمت نہیں ہاری۔ نتیجہ آنے کے بعد گلفشاں نے خود یہ اطلاع اپنے بھائی کو دی تو دونوں بہن بھائی فون پر روتے رہے۔ گلفشاں پروین کا تعلق انتہائی پسماندہ گھرانے سے ہے اور وہ دیوبند کے گوجرواڑا علاقے میں رہتی ہیں۔

خاص بات یہ ہے کہ پی سی جے کی اس کامیابی کے لیے گلفشاں نے کوئی کوچنگ نہیں لی اور تمام تیاری اپنے دم پر کی۔ گلفشاں نے رام منوہر لوہیا لا کالج، لکھنؤ سے تعلیم حاصل کی ہے اور اس سے قبل 'سی ایل ای ٹی' (قانون کی تعلیم کے لیے ایک داخلہ امتحان) پاس کر چکی تھیں۔

والدین کے انتقال کے بعد بھی گلفشاں کی ہمت نہ ٹوٹی، جج بن کر دیوبند کا سر فخر سے کیا بلند

پڑھائی میں ذہین گلفشاں کو مبارکباد دینے والوں کا تانتا لگا ہوا ہے ۔ دیوبند، جسے دینی تعلیم کا مرکز قرار دیا جاتا ہے، وہاں نامساعد حالات میں آگے بڑھنے والی اس بیٹی کی کامیابی سے بچے بچیاں تحریک حاصل کر رہے ہیں۔ گلفشاں تین بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہیں اور احساس ذمہ داری نے انہیں مزید پختہ کر دیا ہے۔ خاندان سے متعلق فیصلے وہ خود ہی کرتی رہی ہیں۔

گلفشاں کے بھائی ندیم احمد کا کہنا ہے کہ ’’میری والدہ اور والد کے انتقال کے بعد ہم تینوں بہن بھائیوں کی شادی بھی نہیں ہوئی۔ میری ایک اور چھوٹی بہن ہے۔ ایسے حالات میں آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کوچنگ کے بغیر یہ کامیابی حاصل کرنا کتنا مشکل رہا ہوگا۔ ہمیں باجی کی کامیابی پر فخر ہے۔ جب انہوں نے مجھے فون کر کے بتایا کہ ندیم میں نے کوالیفائی کر لیا ہے تو میرے منہ سے ایک لفظ نہیں نکلا، اس کے بعد کچھ دیر تک ہمارے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی، ہم دونوں فون پر رونے لگے۔ میری چھوٹی بہن بھی میرے پاس آئی اور وہ بھی رونے لگی۔ درد یہ بھی تھا کہ یہ میری والدہ اور والد صاحب کا خواب تھا اور وہ اسے پورا دیکھنے کے لیے موجود نہیں تھے۔ میرے والد مرسلین کا انتقال ایک سال قبل ہی ہوا ہے۔‘‘


ایک ہونہار طالبہ گلفشاں بھی اپنی کامیابی پر بہت جذباتی ہیں اور کہتی ہیں کہ یہ سب ان کے والدین کی پرورش اور اللہ کے کرم کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہ ’’جب ہمارے اردگرد کی لڑکیاں پانچویں جماعت کے بعد اسکول چھوڑ دیتی تھیں تو میرے والد نے مجھے انگلش میڈیم اسکول میں پڑھایا۔ 12ویں کے بعد انہوں نے مجھے لکھنؤ میں پڑھنے کے لیے بھیجا اور تمام منفی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کی۔‘‘

گلفشاں نے مزید کہا ’’مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ میرے والد کی سوچ اور لگن نے مجھے یہاں تک پہنچایا ہے۔ کتابوں کی اپنی جگہ ہے اور تعلیمی نظام کی بھی لیکن جو چیز سب سے اہم ہے وہ اعتماد ہے۔ میرے خاندان نے اسے ثابت کر کے دکھایا۔ میں دن میں 10 گھنٹے پڑھتی تھی لیکن 24 گھنٹے میرے ذہن میں سب کچھ گھومتا رہتا تھا۔‘‘

والدین کے انتقال کے بعد بھی گلفشاں کی ہمت نہ ٹوٹی، جج بن کر دیوبند کا سر فخر سے کیا بلند

غورطلب ہے کہ پچھلے کچھ سالوں میں مغربی اتر پردیش کے ان علاقوں میں تین درجن سے زیادہ مسلم لڑکیوں نے جوڈیشل سروسز میں کامیابی حاصل کر کے ایک مثال قائم کی ہے۔ میرٹھ کی ندا، ہما، فرحین، حنا، کوثر، بشریٰ نور، مظفر نگر کی زینت، مہناز، سہارنپور کی فرحہ اور عائشہ کے علاوہ اتراکھنڈ سے تعلق رکھنے والی تین مسلم لڑکیاں جج بن چکی ہیں۔ میرٹھ میں ایک کوچنگ انسٹی ٹیوٹ چلانے والے سرفراز رانا کا کہنا ہے کہ ’’خاص طور پر مسلم لڑکیوں میں جوڈیشل سروسز کے تئیں بہت زیادہ رجحان ہے۔ پہلے اس طرح کا رجحان ٹیچر بننے یا بینک میں نوکری حاصل کرنے کی طرف دیکھا جاتا تھا لیکن اب کہانی بدل گئی ہے۔ ایک سال میں 100 سے زائد لڑکیاں عدالتی خدمات کی تیاریوں کے لیے کوچنگ لینے کی خواہش کا اظہار کرتی ہیں۔‘‘


گلفشاں کو مبارکباد دینے پہنچیں سماجوادی پارٹی لیڈر اقرا حسن کا کہنا ہے کہ ’’وہ اس کامیابی سے بہت خوش ہیں جو مسلم لڑکیوں کو مل رہی ہے۔ اس سے پہلے اتراکھنڈ اور اتر پردیش میں اچھے نتائج سامنے آتے رہے ہیں۔ آج کل ہم دیکھ رہے ہیں کہ راجستھان، جھارکھنڈ اور دہلی میں جوڈیشل سروس میں مسلم لڑکیوں کی شمولیت میں اضافہ ہوا ہے، یہ بہت اچھی علامت ہے اور اس سے سماج کی پسماندگی ختم کرنے اور تعلیم کے تئیں نظریہ تبدیل کرنے میں مدد ملے گی۔‘‘

اقرا نے مزید کہا ’’گلفشاں نے انتہائی مشکل حالات میں کامیابی حاصل کی ہے۔ جب عورت گھر کے اندر رہتی ہے تو ہم خود ترقی کی اپنی آدھی امیدیں ختم کر دیتے ہیں۔ گلفشاں نے یہ کامیابی پہلی ہی کوشش میں حاصل کی ہے۔ یہ بہت مثبت ہے اور امید ہے کہ دیوبند اور ملک بھر کی بیٹیاں اس سے متاثر ہوں گی۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔