گجرات نتائج : کانگریس 61 سے 80 اور بی جے پی 115سے 99

امت شاہ نے گجرات میں 150 سیٹ حاصل کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ لیکن پارٹی 99 سیٹوں تک محدود رہ گئی۔ بی جے پی نے مایوس کن کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور1995 کے بعد سے بی جے پی کی یہ سب سے خراب کارکردگی رہی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

گجرات اور ہماچل پردیش کے اسمبلی انتخابات میں حالانکہ بی جے پی امت شاہ کی امیدوں پر پوری طرح سے کھری نہیں اتر سکی ہے پھر بھی اس نے دونوں ریاستوں میں اکثریت حاصل کر لی ہے۔ دونوں ریاستوں، خصوصاً گجرات میں فتح کے بعد جہاں ایک طرف بی جے پی سکون کی سانس لے رہی ہے وہیں گجرات میں بی جے پی کو زبردست ٹکر دینے والی کانگریس کی کارکردگی کو بھی وہ نظر انداز نہیں کر سکتی ۔ گجرات میں کانگریس جادوئی نمبر سے محض 10-11 سیٹ پیچھے رہی اور کئی سیٹوں پر اس کے امیدوار بی جے پی امیدوار سے بہت کم فرق سے ہارے ہیں۔سال 2012کے اسمبلی انتخابات کے مقابلے میں اس مرتبہ بی جے پی نے 16نشستیں ہاری ہیں کیونکہ وہ 115سے 99پر آ گئی ہے اور کانگریس نے 16سیٹیں زیادہ حاصل کی ہیں۔ جہاں تک بی جے پی کا سوال ہے، نریندر مودی کی قیادت میں حالانکہ اس نے بہت نمایاں کامیابی حاصل نہیں کی لیکن حکومت سازی کے لیے ضروری 92 سے تقریباً نصف درجن سیٹ زیادہ حاصل کر لی ہیں ۔اس شکست پر کانگریس نے کہا ہے کہ ہم صرف ایک مورچہ پر ہارے ہیں جنگ نہیں ہارے ۔

2014سے بی جے پی قیادت ملک کو’کانگریس مکت‘ کانگریس سے پاک بنانے کی بات کرتی رہی ہے لیکن گجرات انتخابات کے نتائج آنے کے بعد اس کے اس موقف میں زبردست تبدیلی آئی ہے۔ بی جے پی صدر امت شاہ نے نئی دہلی میں صحافیوں سے مخاطت ہوتے ہوئے کہا کہ بی جے پی نے گجرات میں ذات پات، ووٹ بینک اور خاندانی سیاست کو شکست دی ہے اور بی جے پی ملک کو ان تین ناسوروں سے پاک کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اترپردیش کے بعد اب گجرات میں بی جے پی نے ان تین ناسوروں کو شکست دی ہے یعنی اب ملک کو ’کانگریس مکت‘نہیں بلکہ ان تین ناسور وں سے پاک کرنے کی بات کہی ہے۔ امت شاہ نے گجرات انتخابات کے نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس کے سینئر رہنما شکتی سنگھ گوہل، ارجن موٹواڈیا ، سدھارتھ پٹیل اور تشار چودھری شکست سے دو چار ہوئے ہیں لیکن انہوں نے اس موقع پر یہ نہیں بتایا کہ بی جے پی کے کتنے وزراء کو شکست ہوئی ہے۔

واضح رہے کہ امت شاہ نے گجرات میں 150 سیٹ حاصل کرنے کا دعویٰ کیا تھا لیکن پارٹی 99 سیٹوں تک ہی محدود رہ گئی۔ اس نظریہ سے دیکھا جائے تو بی جے پی نے مایوس کن کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، لیکن جیت پھر جیت ہوتی ہے اور اس جیت نے پارٹی صدر امت شاہ اور وزیر اعظم نریندر مودی کے چہروں پر خوشی برقرار رکھی ہے۔ صبح تقریباً 9 بجے جس طرح سے کانگریس نے بی جے پی پر سبقت حاصل کی تھی اس سے تو نریندر مودی بریگیڈ کے حواس باختہ ہو گئےتھے لیکن 10 بجتے بجتے بی جے پی نے اپنی گرفت مضبوط بنا لی اور آخر تک اس نے اپنی سبقت برقرار رکھی۔ ایک وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ وجے روپانی اور نائب وزیر اعلیٰ نتن پٹیل بھی کانگریس امیدوار سے پیچھے چل رہے تھے لیکن آخر میں ان دونوں نے فتح حاصل کی۔ نتن پٹیل نے تو ایک ہزار سے بھی کم ووٹوں سے جیت حاصل کی ہے۔

انتخابی نتائج برآمد ہونے کے بعد ملک کے مختلف گوشوں میں موجود بی جے پی کارکنان میں خوشی کی لہر دیکھنے کو مل رہی ہے۔ دہلی میں واقع پارٹی صدر دفتر میں گجرات فتح کا جشن زور و شور سے منایا جا رہا ہے۔ دہلی واقع اشوک روڈ پر بی جے پی کارکنان کا ہجوم دیکھنے کو مل رہا ہے۔ پارٹی کی فتح کے مدنظر مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ابھی ابھی راہل گاندھی صدر بنے ہیں اس لیے میں زیادہ تو کچھ نہیں کہوں گا، بس اتنا کہوں گا کہ سر منڈاتے ہی اولے پڑے۔‘‘ مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی سے جب بی جے پی کے محض 99سیٹوں تک سمٹ جانے کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’’جو جیتا وہی سکندر۔ یہ فتح ہمارے لیے بہت خوشی کی بات ہے۔ یہ ترقی کی جیت ہے۔‘‘

دوسری جانب ہماچل پردیش میں قدیم روایت جاری رہی اور ایک بار پھر ریاست میں حکومت کی تبدیلی کے آثار شروعاتی رجحانات سے ہی نظر آنے لگے تھے۔ دھیرے دھیرے بی جے پی نے موجودہ حکمراں پارٹی کانگریس کو بہت پیچھے چھوڑ دیا اور 68 رکنی اسمبلی میں 40 سے زائد سیٹوں پر اپنی فتح کا پرچم لہرا دیا۔ یہاں کانگریس کو 20 سے بھی کم سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا۔ کانگریس کے لیے ہماچل پردیش میں خوشی کی بات یہ رہی کہ اس کا ووٹ فیصد بی جے پی سے بہت زیادہ کم نہیں رہا۔ بی جے پی کو جہاں تقریباً 48 فیصد ووٹ حاصل ہوئے وہیں کانگریس کو 42 فیصد ووٹ ملے۔ گویا کہ ووٹ فیصد کا فرق محض 6 فیصد رہا۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔