مودی کا نیا رنگ، اذان کے وقت تقریر روکی!

مسلمانوں کا ایک طبقہ مودی کو ’اقلیت حامی‘ تصور کرنے کی بے وقوفی بھی کر سکتا ہے جس کا اثر گجرات اسمبلی انتخابات کے نتیجہ پر بھی بے شک پڑے گا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز تجزیہ

گجرات اسمبلی انتخابات کی تشہیر میں وزیر اعظم نریندر مودی پوری طرح سرگرم ہیں۔ 29 نومبر کو انھوں نے چار انتخابی ریلیاں کی جس میں تین سوراشٹر میں اور ایک جنوبی گجرات میں۔ ہر ریلی میں انھوں نے کانگریس اور راہل گاندھی کو برا بھلا کہنے اور کوسنے کی پالیسی پر عمل کیا لیکن جنوبی گجرات کے نوساری میں ہوئی ریلی کی خاص بات یہ رہی کہ وہاں نریندر مودی نے اپنی تقریر شروع کی اور پھر درمیان میں دو منٹ تک خاموش رہے۔ خاموشی کی وجہ یہ تھی کہ قریب کی ایک مسجد سے اذان کی آواز آرہی تھی اور انھوں نے تقریر کو جاری رکھنا مناسب نہیں سمجھا۔

یہاں غور کرنے والی بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنے عمل سے ہمیشہ اقلیتوں کو ملک میں دوسرے درجے کا شہری تصور کیا پھر اچانک اذان کا پاس و لحاظ کرنا انھوں نے کیسے قبول کر لیا! یقیناً یہ ان کی پالیسی کا حصہ ہے کیونکہ ایسا کرنے سے وہ اقلیتی ووٹوں میں سیندھ لگانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اذان کے وقت تقریر روکے جانے کی باتیں مقامی میڈیا میں بھی آئیں اور ریلی میں موجود عوام نے بھی اس چیز کو محسوس کیا جوکہ اقلیتی طبقہ میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس سے مسلمانوں کا ایک طبقہ مودی کو ’اقلیت حامی‘ تصور کرنے کی بے وقوفی بھی کر سکتا ہے جس کا اثر گجرات اسمبلی انتخابات کے نتیجہ پر بھی بے شک پڑے گا۔

حالانکہ اس سے پہلے وزیر اعظم نریندر مودی نے 2016 میں مغربی بنگال کی ایک انتخابی ریلی میں بھی اذان کی آواز سن کر خاموشی اختیار کر لی تھی اور تقریباً پانچ منٹ خاموش رہے تھے۔ اس وقت انھوں نے کہا تھا کہ وہ کسی کی عبادت میں خلل ڈالنا نہیں چاہتے اس لیے تقریر روکی گئی۔ لیکن غور و فکر کی بات یہ ہے کہ پورے ملک میں اقلیتی طبقہ کے خلاف جو ماحول بن چکا ہے اور گھر واپسی و موب لنچنگ جیسے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اس کے خلاف کوئی مثبت کارروائی وہ کیوں نہیں کرتے، یا قصورواروں کے خلاف سخت اقدام کیوں نہیں اٹھائے جاتے۔ اس کو دیکھ کر تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ مغربی بنگال میں بھی انتخابی ریلی کے دوران اذان کے وقت تقریر روک کر مسلمانوں کو بانٹنے کی کوشش کی گئی تھی اور اب گجرات میں بھی انتخابی ریلی کے دوران ہی اس ’پالیسی‘ کو اختیار کر کے مسلم ووٹوں میں سیندھ لگانے کی کوشش ہو رہی ہے۔

اذان کے وقت وزیر اعظم کا تقریر روکنا ایک اور وجہ سے مشتبہ نظر آتا ہے۔ کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی جب گجرات دوروں کے دوران مندروں میں جاتے ہیں اور پوجا کرتے ہیں تو مودی بریگیڈ مشتہر کرتی ہے کہ وہ ’دِکھاوے‘ کے لیے مندروں میں جا رہے ہیں اور انھیں ہندو مذہب سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ حالانکہ راہل گاندھی ہندو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اور مندروں میں پوجا کرنا ان کے معمول کا حصہ ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے اپنی پوجا کو آر ایس ایس اور وی ایچ پی ذہنیت کے لوگوں کی طرح ’سیاست‘ کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا۔ راہل سیکولر سوچ رکھنے والے لیڈر ہیں اور یہ کسی سے پوشیدہ نہیں کہ آر ایس ایس، وی ایچ پی اور بی جے پی بشمول وزیر اعظم ’ہندوتوا ایجنڈا‘ پر کام کر رہے ہیں۔ایسے ماحول میں اذان کے وقت مودی کا تقریر روکنا مسلمانوں کی عبادت میں خلل سے بچنے کی کوشش نہیں ’دِکھاوا‘ اور ’چالبازی‘ ہے جس کے جال میں مسلمانوں کو پھنسنا نہیں چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔