گجرات پل حادثہ: موربی میں پل گرنے کے لئے تکنیکی خامی نہیں بلکہ انسانی لاپروائی اور لالچ ذمہ دار

انجینئرز اور ماہرین، یہاں تک کہ آئی آئی ٹی دہلی جیسے ملک کے اعلیٰ ادارے کا بھی خیال ہے کہ پل گرنے جیسے حادثات کے پیچھے انسانی لاپرواہی اور لالچ ذمہ داری ہوتی ہے، تکنیکی خامی نہیں

گجرات کے موربی میں منہدم پل / Getty Images
گجرات کے موربی میں منہدم پل / Getty Images
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: حال ہی میں گجرات کے موربی میں پل گرنے سے 141 افراد ہلاک ہو گئے۔ حادثے کے بعد ایک سوال یہ بھی اٹھ رہا ہے کہ کیا پل کے ڈیزائن یا ٹیکنالوجی میں ایسی کوئی خامی تھی جس کی وجہ سے یہ حادثہ پیش آیا۔ انجینئرز اور ماہرین اس پر واضح رائے رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ آئی آئی ٹی دہلی جیسے ملک کے اعلیٰ ادارے کا بھی خیال ہے کہ پل گرنے جیسے حادثات کے پیچھے انسانی لاپرواہی اور لالچ ذمہ داری ہوتی ہے، تکنیکی خامی نہیں۔

آئی آئی ٹی دہلی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں پل یا فلائی اوور بنانے کے لیے قابل اعتماد اور جدید ٹیکنالوجی دستیاب ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تکنیکی پہلوؤں کو نظر انداز کرنے سے حادثات رونما ہوتے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ 30 اکتوبر کو گجرات کے موربی شہر میں مچھو ندی پر ایک معلق پل گرنے سے 141 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ حادثے کے بعد 5 روز تک ہلاک شدگان کی تلاش جاری رہی۔ اس سے قبل مغربی بنگال میں بھی زیر تعمیر پل ٹوٹنے کا واقعہ پیش آیا تھا۔ اس وقت بھی تعمیراتی کام میں لاپرواہی کے سنگین الزامات لگے تھے۔


آئی آئی ٹی دہلی کے ڈپٹی ڈائریکٹر پروفیسر سری کرشنن نے کہا کہ ٹیکنالوجی کی ناکامی یا ٹیکنالوجی کی خامی موربی یا اس طرح کے دوسرے پل ٹوٹنے کے حادثات کی وجہ نہیں ہے۔ پروفیسر کرشنن کے مطابق ہندوستان میں تعمیرات کے لیے بہترین ٹیکنالوجی دستیاب ہے۔ بہتر تعمیرات کا تقاضہ ہے کہ موجودہ ٹیکنالوجی کو صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے۔ آئی آئی ٹی دہلی کے ڈپٹی ڈائریکٹر کے مطابق موربی جیسے حادثات انسانی لالچ اور لاپرواہی کا نتیجہ ہیں۔ اس کے لیے ٹیکنالوجی کی کمی کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

پروفیسر سری کرشنن نے کہا کہ اگر تعمیراتی کام یا تزئین و آرائش تمام اصول و ضوابط کے مطابق کیا جائے تو ایسے حادثات رونما نہیں ہوں گے لیکن جب تعمیرات سے وابستہ افراد غفلت اور لالچ کی وجہ سے قواعد کو نظر انداز کرتے ہیں تو ایسے حادثات منظر عام پر آتے ہیں۔

موربی میونسپلٹی نے جھولا پل کی مرمت اور دیکھ بھال کا کام 'اوریوا گروپ' نامی ایک نجی کمپنی کو 15 سال کے لیے سونپا تھا۔ کمپنی پر دیکھ بھال میں لاپرواہی کا الزام ہے۔ اس واقعے کے سامنے آنے کے بعد اب تک 9 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔


اب تک کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اوریوا گروپ نے پرانے پل کی تزئین و آرائش میں صرف 12 لاکھ روپے خرچ کیے جبکہ کمپنی کو پل کی تزئین و آرائش کے لیے 2 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے۔ پل گرنے کے واقعے میں تقریباً 170 افراد زخمی ہوئے۔ دہائیوں پرانے اس پل کو حال ہی میں تزئین و آرائش کے بعد کھول دیا گیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔