گجرات انتخابات: بی جے پی کی راہ آسان نہیں

بی جے پی نے 2012 کے انتخابات میں پہلے مرحلے کی پولنگ میں 89 میں سے 63 سیٹیں جیتی تھیں لیکن اس بار اس آنکڑے تک پہنچنا اس کے لئے ناممکن نظر آ رہا ہے۔

مودی اور امت شاہ
مودی اور امت شاہ
user

راہل پانڈے

9 دسمبر کو گجرات میں جس وقت ووٹ ڈالے جائیں گے تو سب سے بڑا سوال یہ ہوگا کہ بی جے پی کے 22 سالوں کی حکمرانی کا کیا ہوا؟ بی جے پی نے 2012 کے انتخابات میں پہلے مرحلے کی پولنگ میں 89 میں سے 63 سیٹیں جیتی تھیں لیکن اس بار اس آنکڑے تک پہنچنا اس کے لئے ناممکن نظر آ رہا ہے۔

بی جے پی شاید زمین پر تیزی سے تبدیل ہو رہی صورت حال سے واقف ہے اور اس لئے اس نے پرانے حربے آزمانے شروع کر دئے ہیں۔ لیکن ان کا بھی پہلے والا اثر نظر نہیں آ رہا ہے ۔

کل پولنگ ہے اور یہ صاف ہو گیا ہے کہ عام آدمی پارٹی اور شنکر سنگھ واگھیلا اس چناؤ میں کوئی بڑی طاقت بن کر جلوہ افروز نہیں ہو سکے ہیں۔ ممکن ہے کہ کچھ سیٹوں پر ان کا اثر دنظر آئے لیکن یہ چناؤ مجموعی طور پر کانگریس اور بی جے پی کے بیچ سیدھا مقابلہ ہی ہو گا۔

پہلے مرحلے کی پولنگ بی جے پی کے لئے کافی اہم ہے کیوں کہ ریاست کے 33 میں سے 19 اضلاع میں پولنگ اسی مرحلے میں ہوگی اور وہ اضلاع جنوبی گجرات ، کچھ سوراشٹر اور وسطی گجرات میں واقع ہیں۔ 2012 میں ان اضلاع پر بی جے پی کا پوری طرح قبضہ تھا اور پہلے مرحلے کے 19 اضلاع میں سے 15 پر اس کوسبقت تھی اور سورت اور پوربندر میں 25 فیصد بڑھت تھی جبکہ بھاؤنگر میں بی جے پی کو 18 فیصد کی بڑھت حاصل ہوئی تھی۔

پہلے مرحلے میں 89 سیٹوں پر ہونےوالے پولنگ میں کانگریس 10 فیصد سے تھوڑے زیادہ ووٹوں سے پیچھے تھی۔ یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ کیشو بھائی پٹیل کی پارٹی گجرات پریورتن پارٹی (جی پی پی )کو پہلے مرحلے کی سیٹوں پر 5.7 فیصد ووٹ ملے تھے جبکہ جےڈی یو کو 1.1 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ اگر ہم جی پی پی اور جے ڈی یو کو حاصل شدہ ووٹوں کی کانگریس کو ملے ووٹوں میں جمع کر دیں تو یہ ایک نزدیکی مقابلہ ہو جائے گا اور فرق محض 3.5 فیصد کا رہ جائے گا۔ 89 سیٹوں پر بی جے پی کو 63 سیٹیں ملی تھیں جبکہ کانگریس کومحض 22 سیٹیں حاصل ہوئی تھیں ۔ جے ڈی یو کو ایک ، این سی پی کو ایک اور جی پی پی کو 2 سیٹیں حاصل ہوئی تھیں۔

یہاں جی پی پی کا اثر کافی اہم ہو جاتا ہےکیونکہ اس پارٹی کو 23 اسمبلی حلقوں میں سے 10 ہزار سے زیادہ اور 10 سیٹوں پر 20 ہزار سے زیادہ ووٹ ملے تھے۔ 2017 کا گجرات 2012 کے گجرات سے کافی مختلف ہے کیوں کہ زیادہ تر پٹیل اس وقت بی جے پی کے ساتھ تھے۔ پچھلے الیکشن کا مطالعہ بتاتا ہے کہ تقریباً تین چوتھائی پٹیلوں نے (لیہوا اور کدوا دونوں ) بی جے پی کو ووٹ دئے تھے۔ سروے اور زمینی معلومات سے اشارے ملتے ہیں کہ پٹیل کافی بڑی تعداد میں کانگریس کی طرف جا رہے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ کانگریس کو بی جے پی کے مقابلہ پٹیلوں کے زیادہ ووٹ حاصل ہو سکتے ہیں اور یہ تنہا کانگریس کو ایک بہترین شروعات فراہم کر سکتے ہیں۔

آئندہ انتخابات میں جے ڈی یو بھی ایک اہم جماعت ہونے جا رہی ہے کیوں کہ اسے پہلے مرحلہ کی سیٹوں پر 1.1 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ حالانکہ جے ڈی یو نے محض ایک فیصد ووٹ حاصل کئے تھے لیکن اس بار یہ کانگریس کو کچھ نزدیکی مقابلوں کو جیت میں بدلنے کا سبب بن سکتی ہے۔ ریاست میں قبائلی ووٹوں کا بھی ایک اہم کردار ہے اور بی جے پی قبائلی ووٹروں کے بیچ اپنی بنیاد کو مضبوط کرنے میں کوشاں ہیں ۔ قبائلی ذاتوں کے لئے مختص 27 سیٹوں میں سے کانگریس نے 16 ، بی جے پی نے 10 اور جے ڈی یو نے ایک سیٹ جیتی تھی۔ اگر کانگریس قبائلی ووٹروں کے بیچ اپنی مقبولیت برقرار رکھنے میں کامیاب ہوتی ہے تو اس کے پاس 22 سال کی اقتدار سے جدائی کو ختم کرنے کا یہ ایک اچھا موقع ہوگا۔

سب کی نگاہیں سورت ضلع پر رہیں گی جہاں 2012 میں بی جے پی کو 16 میں سے 15 سیٹوں پر جیت ملی تھی اور بی جے پی کو کانگریس پر 25 فیصد کی شاندار سبقت حاصل ہوئی تھی اور کانگریس کی اکلوتی جیت قبائلی اکثریت والی مانڈوی سیٹ پر ملی تھی کیوں کہ شہری علاقوں میں بی جے پی کے حق میں بھاری تعداد میں پولنگ ہوئی تھی۔ جی ایس ٹی کے بعد تقریباً ایک لاکھ لوم کوکباڑ میں بیچنا پڑا اور کپڑے کی تیاری 3.5 کروڑ میٹر سے 1.5 کروڑ میٹر تک کم ہو گئی ہے۔ ہیرے کی صنعت کو بھی جھٹکا لگا ہے جس نے بی جے پی کے ووٹ بینک کے لئے زبردست خطرہ پیدہ کر دیا ہے۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہیہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 08 Dec 2017, 9:58 PM