مظفر نگر سے گراؤنڈ رپورٹ: فضا بدل گئی ہے، جاٹ-مسلم اتحاد نے بی جے پی کی نیند اڑائی

مظفرنگر میں سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ جاٹ اور مسلمان ایک ساتھ ہیں، ایک ہی گاڑی میں انتخابی مہم چلا رہے ہیں، وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ یہ فسادات بی جے پی نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے کروائے تھے۔

تصویر آس محمد
تصویر آس محمد
user

آس محمد کیف

مظفرنگر شہر کے مشہور میناکشی چوک سے شاملی بس اسٹینڈ تک پہنچنے کے لیے تقریباً 3 کلومیٹر کی ایک مرکزی سڑک کو عبور کرنا پڑتا ہے، یہ مظفرنگر کے سب سے مشہور علاقے کھالا پار سے گزرتی ہے۔ کھالاپار کے بعد کھدر والا اور پھر کرشنا پوری-پریم پوری ہے۔ کھالا پار مسلم اکثریتی علاقہ ہے، کھدر والا دلت اکثریتی علاقہ ہے اور کرشنا پوری-پریم پوری جاٹ اکثریتی علاقہ ہے۔ 2013 کے فسادات کے دوران اس علاقے نے انتظامیہ کے سر میں سب سے زیادہ درد کیا تھا۔ فسادات کے اس سیاہ ہفتے میں، رات کو کسی نے آنکھ نہیں جھپکی تھی۔ پولیس ہلکان تھی اور یہاں کئی آمنے سامنے کی جھڑپیں ہوئیں تھیں۔ کسی کی ایک دوسرے کے محلوں میں اکیلے جانے کی ہمت نہیں تھی۔ پولیس ہر دروازے پر پہرہ دے رہی تھی۔ یہ مظفرنگر فسادات کے دوران سب سے زیادہ تناؤ والا علاقہ تھا۔

ڈیڑھ لاکھ سے زائد کی مِلی جُلی آبادی والے اس علاقے میں 9 سال بعد ماحول بالکل بدل گیا ہے۔ اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ مظفرنگر ضلع کی سب سے بڑی مسلم آبادی والی اسمبلی سیٹ چارتھوال سے سماج وادی پارٹی-راشٹریہ لوک دل اتحاد کے امیدوار پنکج ملک کا گھر اس کرشنا پوری محلے میں ہے۔ رات کو جاٹ اور مسلم کارکن انتخابی مہم ختم ہونے کے بعد پنکج ملک کے گھر لوٹتے ہیں، وہ ایک ساتھ چائے پیتے ہیں، کھانا کھاتے ہیں اور دن کی سرگرمیوں پر گفتگو کے ساتھ ساتھ پوری رات گزار دیتے ہیں۔ یہی نہیں اب جاٹوں کو رات گئے کسی بھی وقت کھالاپار جانے میں کوئی عار نہیں ہے اور نہ ہی کھالاپار کے کسی مسلمان کو کرشنا پوری میں کسی گھر پر دستک دینے میں کوئی اعتراض ہے۔


کھالاپار کے دلشاد پہلوان کا کہنا ہے کہ ماحول بالکل بدل گیا ہے۔ دونوں برادریوں نے اسے بدلنے کی کوشش بھی کی ہے۔ پہلے لوگوں نے تقسیم کی سیاست کو سمجھا اور اس کے بعد انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ دلشاد پہلوان کا کہنا ہے کہ ان کے بہت سے جاٹ دوست ان کے گھر بیٹھتے ہیں۔ وہ ان کے گھر بھی جاتے ہیں۔ اب اگر فسادات پر بحث ہوتی ہے تو دونوں کو اپنی غلطیوں پر پچھتاوا ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فساد سیاسی تھا۔ اجے چودھری بھی اس سے متفق ہیں، وہ کہتے ہیں کہ خاندانوں میں لڑائی ہوتی ہیں اور پھر وہ اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ ہمیں ایک ساتھ رہنا ہے، دونوں کی لڑائی ہار گئی اور تیسرے کو بڑا فائدہ ہوا۔

مظفرنگر ضلع میں 6 ودھان سبھا ہیں۔ یہ نشستیں شہر، چارتھاول، پرقازی، میراپور، کھتولی، بڑھانہ ہیں۔ ان سب سیٹوں پر اتحاد اور بی جے پی کے درمیان سیدھی لڑائی ہے۔ زمین پر بات کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑائی بہت قریب ہے۔ لوگ مسائل پر بات نہیں کرتے، وہ حکومت کو ہٹانا یا بچانا چاہتے ہیں۔ پر قازی میں کانگریس اور کھتولی میں بی ایس پی اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی ہے۔ ایس پی اتحاد نے مظفرنگر میں ایک بھی مسلم امیدوار کھڑا نہیں کیا ہے۔ جبکہ اکھلیش یادو کی پریس کانفرنس میں 7 لاکھ مسلم ووٹر ہونے کے باوجود مسلم امیدوار نہ بنائے جانے پر سوال پوچھے جا رہے ہیں۔


اکھلیش یادو نے تب گنگا-جمنی تہذیب کا حوالہ دیا تھا۔ مظفرنگر میں ایس پی اتحاد نے ٹکٹوں کی تقسیم میں سوشل انجینئرنگ کا کھیل کھیلا ہے جو اپنے آپ میں منفرد ہے۔ مثال کے طور پر میراپور اسمبلی سیٹ پر سماج وادی پارٹی کے لیڈر چندن چوہان کو آر ایل ڈی کا نشان دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایس پی میں شامل ہونے والے سابق ایم پی راج پال سینی بھی کھتولی اسمبلی سے آر ایل ڈی کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اس طرح ذاتوں کی ریاضی کو آسان کر دیا گیا ہے۔

مظفر نگر کی 6 اسمبلی سیٹوں میں سے 4 پر آر ایل ڈی الیکشن لڑ رہی ہے، جبکہ باقی 2 پر سماج وادی پارٹی کے امیدوار ہیں۔ 2017 کے انتخابات میں بی جے پی نے تمام سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ انہوں نے صرف ایک سیٹ پر امیدوار تبدیل کیا۔ وہ سیٹ میرا پور ہے جہاں بی جے پی ایم ایل اے اوتار سنگھ بھڈانہ اب ایس پی-آر ایل ڈی اتحاد سے جیور سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ واضح رہے بی جے پی ایم ایل اے کو لے کر ان کی اسمبلیوں میں ناراضگی ہے۔ پرقازی اسمبلی سیٹ پر بی جے پی کمزور ہے یہاں کانگریس کے سابق وزیر دیپک کمار الیکشن میں بی جے پی امیدوار پرمود اٹوال سے زیادہ مضبوط نظر آرہے ہیں۔ سابق وزیر اوماکرن یہاں اتحاد کے امیدوار انیل کمار کا ریاضی خراب کر رہے ہیں۔ اس ایک سیٹ پر الیکشن دلچسپ ہے۔ سٹی یعنی شہر سیٹ پر اتحاد کمزور دکھائی دے رہا ہے۔


تمام اسمبلی سیٹوں پر مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے اور یہاں جاٹ اور مسلمانوں میں اتحاد ہے۔ میرا پور اسمبلی سیٹ کے امیدوار چندن چوہان کی اہلیہ یاشیکا چوہان کا کہنا ہے کہ سیاست میں عوام کے لیے ریاضی اور سوشل انجینئرنگ کے معاملات کی اپنی قدر ہوتی ہے، لیکن سماج میں ذات پات کی ریاضی کے علاوہ دیگر معاملات کی طرف توجہ دی جانی چاہئے۔عوام کو کسانوں کے تئیں حکومت کے رویہ پر کافی غصہ ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران پیش آنے والی پریشانیوں اور کووڈ کے دوران علاج کی سہولت نہ ملنے کو لے کر عوام کے ذہن میں کئی سوال ہیں۔ 13 ماہ تک کسان مظاہرہ پر بیٹھا رہا لیکن اب زرعی قوانین کی واپسی کے بعد کسانوں کے ذہنوں میں حکومت کے رویہ کے خلاف ناراضگی ہے۔ بی جے پی حکومت کے تئیں کسانوں میں عدم اعتماد ہے۔ مغربی اتر پردیش میں بی جے پی کی مہم کے دوران بار بار علاقہ سے ہجرت، فسادات جیسے مدے اٹھا کر پولرائزیشن کرنے کی کوشش سے ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی میں بے چینی ہے۔

کوال گاؤں، جو مظفر نگر 2013 کے فسادات میں کافی خبروں میں تھا، میرانپور اسمبلی سیٹ کے تحت آتا ہے۔ گاؤں کے کلو قریشی کا کہنا ہے کہ گاؤں میں فرقہ وارانہ ماحول نہیں ہے۔ اس ہنگامہ کے بارے میں اب کوئی بات نہیں ہوتی۔ شاہنواز، گورو اور سچن کی موت کے علاوہ یہاں کوئی تشدد نہیں ہوا اور یہ گاؤں مسلم اکثریتی گاؤں ہے۔ شعیب قریشی نے کوال گاؤں چھوڑ کر میرانپور ٹاؤن میں رہنا شروع کر دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ 2013 کے فسادات کے بعد درجنوں خاندان کو کوال چھوڑ کر جانا پڑا۔ ان لوگوں کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا۔ ہم بھی ان میں سے ایک ہیں۔ خاص طور پر پڑھے لکھے اور اچھے گھرانوں نے کوال کو چھوڑ دیا ہے۔ ہمیں بدنام کیا جا رہا تھا اور ہم ایک بہتر ماحول چاہتے تھے۔


مظفر نگر میں سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ جاٹ اور مسلمان اب ایک ساتھ ہیں اور ایک ہی گاڑی میں انتخابی مہم چلا رہے ہیں، ساتھ ہی وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ یہ فسادات بی جے پی نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے کروائے تھے۔ کھتولی اسمبلی سیٹ کے جانسٹھ قصبے کے دانش علی خان کا کہنا ہے کہ بی جے پی اور اتحاد کے درمیان سیدھی لڑائی ہے۔عوام کا ذہن بنا ہوا ہے، دو ہی فریق ہیں، ایک حکومت کو واپس لانا چاہتا ہے اور دوسرا ہٹانا چاہتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */