مندسور گراؤنڈ رپورٹ: کسانوں کی ناراضگی نے بی جے پی کی مشکلوں میں کیا اضافہ

مندسور میں گزشتہ سال 6 جون کو پپلیا منڈی میں پولس فائرنگ میں کسان تحریک کے دوران مظاہرہ کر رہے 6 کسانوں کی موت ہو گئی تھی۔ تحریک میں مندسور، نیمچ اور رتلام کے کسان بھی موجود تھے۔

تصویر روہت گپتا
تصویر روہت گپتا
user

روہت گپتا

کسان تحریک کے بعد مدھیہ پردیش کا ضلع مندسور پورے ملک میں مشہور ہو گیا۔ اس تحریک کے سبب یہ ضلع سیاسی طور پر مدھیہ پردیش اسمبلی انتخاب میں کافی اہمیت کا حامل ہو گیا ہے۔ ضلع میں اسمبلی کی کل چار سیٹیں ہیں جس میں مندسور، گروٹھ، سواسرا اور ملہار گڑھ شامل ہیں۔ اس وقت 4 اسمبلی سیٹوں میں سے 3 پر بی جے پی اور 1 پر کانگریس کا قبضہ ہے۔ کانگریس کو اس بار اقتدار میں واپسی کی پوری امید ہے۔ گزشتہ سال مندسور میں ہوئی کسان تحریک کے بعد وزیر اعلیٰ شیوراج کی ’کسان پُتر‘ والی شبیہ کو جھٹکا پہنچاتے ہوئے کانگریس صدر راہل گاندھی نے ان پر کسان مخالف ہونے کا ٹیگ لگایا تھا۔ 15 سال کے اقتدار مخالف لہر اور کسانوں کے اندر بی جے پی کے تئیں ناراضگی نے مندسور ہی نہیں، مکمل ریاست میں بی جے پی کے لیے مشکلیں کھڑی کر دی ہے۔

تصویر روہت گپتا
تصویر روہت گپتا

مندسور میں گزشتہ سال 6 جون کو پپلیا منڈی میں پولس فائرنگ میں کسان تحریک کے دوران مظاہرہ کر رہے 6 کسانوں کی موت ہو گئی تھی۔ تحریک میں مندسور، نیمچ اور رتلام کے کسان بھی موجود تھے۔ اس بار مندسور ضلع کے سبھی امیدواروں کی شکست و فتح کسان ہی طے کریں گے۔ ضلع کے کسان اس وقت مندسور منڈی کے باہر لائن لگا کر بیٹھے ہیں۔

دراصل مندسور کی منڈی ریاست کی بہترین منڈیوں میں شامل ہے اور یہ پیاج، لہسن کی سب سے بڑی منڈی ہے۔ مالوا-نماڑ ڈویژن میں اس بار پیاز اور لہسن کی زبردست پیداوار ہوئی ہے۔ مندسور سمیت آس پاس کے کئی اضلاع کے کسان یہاں اپنی فصل فروخت کرنے کے لیے آتے ہیں۔ مندسور کی اس منڈی میں ٹوکن سسٹم نہ ہونے کے سبب گیٹ کے باہر سینکڑوں ٹرک-ٹرالیاں کھڑی ہیں۔ فصل فروخت کرنے کے لیے کسانوں کوکئی کئی دن انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔ انتظار کے بعد جب کسان کا نمبر آ رہا ہے تو انھیں فصلوں کی لاگت تک نہیں مل رہی ہے۔ 4 سال قبل جو لہسن 14000 روپے کوئنٹل تک فروخت ہوا تھا وہ آج 1400 روپے کوئنٹل فروخت ہو رہا ہے۔ 1400 روپے میں لہسن کی سب سے اچھی قسم، جسے منڈی کی زبان میں بم کہا جاتا ہے، کو مل رہے ہیں۔ چھوٹے اور ٹکڑی والے لہسن تو 100 روپے کوئنٹل تک میں فروخت ہو رہے ہیں۔ منڈی پر سالوں سے راج کر رہے بی جے پی لیڈران کسانوں کی ناراضگی کے سبب یہاں جھانکنے تک نہیں آ رہے ہیں۔

تصویر روہت گپتا
تصویر روہت گپتا

کسان طے کریں گے امیدواروں کی قسمت

مندسور ضلع کی چاروں اسمبلی سیٹوں پر کسانوں کا گہرا اثر ہے۔ مندسور سیٹ کو اگر ہٹا دیں تو بقیہ تینوں سیٹوں میں 80 فیصد سے زیادہ پولنگ بوتھ دیہی علاقوں میں ہیں۔ مندسور اسمبلی سیٹ پر کل 285 بوتھ میں سے 155 دیہی علاقے ہیں۔ ملہار گڑھ، سواسرا اور گروٹھ میں 249، 263 اور 245 پولنگ بوتھ دیہی علاقوں میں ہیں۔ ضلع کے دیہی علاقوں میں اس بار کانگریس کو زبردست فائدہ ملتا ہوا نظر آ رہا ہے۔

بی جے پی کے ایشوز کا یہاں اثر ہی نہیں

بی جے پی ریاست میں انتخاب جیتنے کے لیے طرح طرح کے ایشوز اٹھا رہی ہے۔ کبھی کانگریس کو مسلم مخالف بتا رہی ہے تو کبھی کانگریس کے ذریعہ آر ایس ایس پر پابندی عائد کرنے کی باتیں پھیلا رہی ہے۔ یہ خبریں ریاست اور ملک کی میڈیا کی سرخیاں ضرور بن رہی ہیں لیکن زمینی سطح پر ان ایشوز کا اثر کم ہی ہے۔ دیہی علاقوں میں تو ان ایشوز کا کوئی اثر ہی نہیں ہے۔ وہاں کے لوگ ابھی تک پینے کے پانی، بے روزگاری اور سڑک جیسے ایشوز سے نبرد آزما ہو رہے ہیں۔

ضلع کی چاروں اسمبلی سیٹوں کا ایکویشن

مندسور اسمبلی سیٹ پر بی جے پی نے جہاں اپنے موجودہ رکن اسمبلی یشپال سنگھ سسودیا کو میدان میں اتارا ہے وہیں کانگریس نے مناسا سے رکن اسمبلی رہے سینئر لیڈر نریندر نہاٹا کو میدان میں اتارا ہے۔ سسودیا مندسور اسمبلی سیٹ پر گزشتہ دو اسمبلی انتخابات میں فتحیابی حاصل کر چکے ہیں۔ 2008 میں جہاں یشپال صرف 1685 ووٹوں سے جیت پائے تھے وہیں 2013 میں کانگریس کی ضلع پنچایت نائب صدر عائشہ بی کی بغاوت کے بعد یہ نمبر 24295 پہنچ گیا تھا۔ اس بار یشپال کو اسمبلی میں مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دو دن پہلے مندسور کے الاوداکھیڈی میں عوامی رابطہ کرنے پہنچے بی جے پی رکن اسمبلی یشپال کو ایک نوجوان نے تھپڑ تک مار دیا تھا۔ وہیں دگوجے سنگھ کے دور اقتدار میں وزیر رہے نریندر نہاٹا کی قیادت میں مندسور کے کانگریس لیڈر متحد نظر آ رہے ہیں۔

تصویر روہت گپتا
تصویر روہت گپتا

ضلع کی سواسرا اسمبلی سیٹ پر کانگریس رکن اسمبلی ہردیپ سنگھ ڈانگ کا مقابلہ سابق رکن اسمبلی رادھے شیام پاٹیدار سے ہے۔ ہردیپ اور رادھے شیام روایتی حریف رہے ہیں۔ سواسرا میں پاٹیدار ووٹوں کی تعداد کافی زیادہ ہے اور اس کو دھیان میں رکھ کر بی جے پی نے رادھے شیام کو ایک بار پھر میدان میں اتارا ہے۔ کانگریس نے بھی پاٹیدار ووٹوں میں سیندھ لگانے کے لیے پاٹیدار لیڈر اور آزاد امیدوار مہندر پاٹیدار کو کانگریس میں شامل کر لیا ہے۔ کانگریس میں شامل ہوتے ہی مہندر نے اپنا پرچہ نامزدگی واپس لے لیا اور کانگریس نے انھیں ریاست کا نائب صدر بنا دیا ہے۔ کانگریس میں شامل ہوتے ہی مہندر نے مندسور ضلع میں کانگریس امیدواروں کے لیے تشہیر کا کام بھی شروع کر دیا ہے۔

گروٹھ اسمبلی سیٹ پر کانگریس نے بی جے پی امیدوار اور موجودہ رکن اسمبلی دیوی لال دھاکڑ کے مقابلے میں سبھاش کمار سوجتیا کو میدان میں اتارا ہے۔ سبھاش کمار کانگریس کے سینئر لیڈر ہیں اور 1985 سے گروٹھ اسمبلی سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ سوجتیا 1985، 1993، 1998 اور 2008 میں چار بار اسمبلی انتخاب جیت چکے ہیں۔ اسمبلی میں تعلیم اور صحت سے متعلق مسائل اہم ہیں۔ روزگار کے لیے بھی کسانوں کو اجین اور اندور جانا پڑ رہا ہے۔

ملہار گڑھ اسمبلی سیٹ پر کانگریس نے بی جے پی رکن اسمبلی جگدیش دیوڑا کے سامنے پرشو رام سسودیا کو میدان میں اتارا ہے۔ جگدیش دیوڑا گزشتہ 2 بار سے یہاں کے رکن اسمبلی ہیں۔ گزشتہ اسمبلی انتخاب میں کانگریس کے شیام لال جوک چند نے جگدیش کو سخت چیلنج دیا تھا جس کے بعد بی جے پی لیڈر صرف 6571 ووٹوں سے انتخاب جیت پائے تھے۔ پرشو رام کو ٹکٹ ملنے کے بعد کانگریس لیڈر شیام لال جوک چند کچھ وقت کے لیے ناراض ضرور ہو گئے تھے لیکن سابق رکن پارلیمنٹ میناکشی نٹراجن اور انتخابی تشہیر کمیٹی کے سربراہ جیوترادتیہ سندھیا کے سمجھانے پر انھوں نے سسودیا کے حق میں تشہیر کا کام شروع کر دیا ہے۔ شیام لال جوک چند اور پرشو رام سسودیا کے ساتھ آنے سے بی جے پی ایک بار پھر بیک فٹ پر آ گئی ہے۔

مجموعی طور پر مندسور ضلع کی چاروں اسمبلی سیٹوں پر کانگریس اور بی جے پی کے درمیان سیدھا مقابلہ ہے۔ شہر کے کچھ علاقوں کو چھوڑ دیں تو بی جے پی یہاں پچھڑتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ ہندو-مسلم، رام مندر اور آر ایس ایس پر پابندی جیسے ایشوز یہاں بے اثر نظر آ رہے ہیں۔ کسانوں کے اندر حکومت کے تئیں ناراضگی یہاں کانگریس کو کافی فائدہ پہنچانے والا ہے۔ کانگریس کارکنان کے اندر جیت کا بھروسہ نظر آ رہا ہے تو وہیں بی جے پی کارکنان بھی دَبی آواز میں یہ مان رہے ہیں کہ مندسور ضلع میں کانگریس کی سیٹیں بڑھ رہی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 19 Nov 2018, 9:09 PM