گریٹ نکوبار جزیرہ منصوبہ ایک غلط قدم، قبائلیوں کے حقوق کو لے کر فکرمند راہل نے شیئر کیا سونیا گاندھی کا مضمون

سونیا گاندھی کا کہنا ہے کہ اس منصوبہ میں آئینی اور قانونی باڈیز کو درنکار کر دیا گیا ہے۔ حکومت نے درج فہرست قبائل کے لیے قومی کمیشن سے مشورہ نہیں کیا اور قبائلی کونسل کو بھی نظر انداز کر دیا۔

<div class="paragraphs"><p>راہل گاندھی (فائل)، تصویر @INCIndia</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

کانگریس پارلیمانی پارٹی کی سربراہ سونیا گاندھی نے ’دی ہندو‘ اخبار میں 8 ستمبر کو لکھے اپنے ایک مضمون میں گریٹ نکوبار جزیرہ منصوبہ کو لے کرقانونی عمل کو نظر انداز کیے جانے کی مذمت کی ہے۔ سونیا نے اس منصوبہ میں نکوباری اور شومپین قبائلیوں کے حقوق کی اندیکھی، ماحولیات کو ہونے والے نقصان (تقریباً 8.5 لاکھ سے 58 لاکھ پیڑ کاٹے جانے کا اندازہ) کو لے کر حکومت کو نشانہ بنایا۔ انہوں نے زلزلہ کے لحاظ سے فعال علاقے میں میں اس پروجیکٹ کے لوکیشن کو بھی ایک بڑا خطرہ بتایا اور اس منصوبہ کی مخالفت کرنے کی اپیل کی۔

راہل گاندھی نے بھی سونیا کے اس مضمون کو سوشل میڈیا سائٹ ’ایکس‘ پر شیئر کیا ہے۔ انہوں نے لکھا، ’’گریٹ نکوبار جزیرہ منصوبہ ایک غلط قدم ہے جو آدیباسی حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہے اور قانونی اور غور و فکر کے عمل کا مذاق اڑاتی ہے۔‘‘

راہل نے آگے کہا، ’’ اس مضمون کے ذریعہ کانگریس پارلیمانی پارٹی کی سربراہ سونیا گاندھی نے اس منصوبہ سے نکوبار کے لوگوں اور ان کے نازک ماحولیاتی نظام پر ہوئی ناانصافی کو نشان زد کیا ہے۔‘‘


سونیا گاندھی نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ گریٹ نکوبار میگا انفااسٹرکچر منصوبہ، جس کا تخمینی خرچ 272,000 کروڑ روپے ہے، نکوبار جزیرہ کے مقامی قبائلی برادریوں کے لیے ایک وجودی خطرہ ہے۔ یہ منصوبہ دنیا کے سب سے منفرد نباتات اور حیوانات کے ماحولیاتی نظام کو خطرے میں ڈالتا ہے اور قدرتی آفات کے تئیں انتہائی حساس ہے۔ اس منصوبہ سے نکوباری قبائل اور شومپین قبائل (ایک خاص طور سے کمزور قبائلی گروپ) متاثر ہوں گے۔ سونیا گاندھی نے مزید لکھا کہ نکوباری قبائلیوں کے آبا ؤ اجداد کے گاؤں منصوبہ کے مجوزہ زمینی علاقے میں آتے ہیں اور اس منصوبہ سے انہیں اپنے آبائی گاؤں واپس لوٹنے کے خواب سے محروم کیا جائے گا۔ شومپین قبائل کو اور بھی بڑا خطرہ ہے کیونکہ منصوبہ ان کے قبائلی ریزرویشن کے ایک اہم حصے کو ہٹا دیتی ہے اور ان کے رہنے کے مقام کو تباہ کر دیتی ہے۔

سونیا گاندھی کا کہنا ہے کہ اس منصوبہ میں آئینی اور قانونی باڈیز کو درنکار کر دیا گیا ہے۔ حکومت نے درج فہرست قبائل کے لیے قومی کمیشن سے مشورہ نہیں کیا اور گریٹ نکوبار اور لٹل نکوبار جزیرہ کی قبائلی کونسل کو نظر انداز کیا۔ کونسل کے سربراہ کی عرضی، جس میں نکوباری قبائلیوں کو ان کے آبائی گاؤں لوٹنے کی اجازت دینے کی گزارش کی گئی تھی، کو نظرانداز کر دیا گیا۔ سماجی اثرات کی تشخیص (ایس آئی اے) میں نکوباری اور شومپین کو اسٹیک ہولڈرس کے طور پر شامل نہیں کیا گیا تھا اور فاریسٹ رائٹ ایکٹ (2006) کی اندیکھی کی گئی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔