گورکھپور بنا ’موت پور‘، 48 گھنٹوں میں 42 اموات

Getty Images
Getty Images
user

قومی آوازبیورو

گورکھپور کے بی آر ڈی کالج میں آکسیجن کی کمی سے ہونے والی 62 اموات کا معاملہ ابھی ٹھنڈا بھی نہیں ہوا تھا کہ وہاں سے خبریں آ رہی ہیں کہ گزشتہ 48 گھنٹوں میں پھر 42 بچوں کی اموات ہو چکی ہیں۔

گورکھپور : گورکھپور اب گورکھپور نہیں ’موت پور‘ بن چکا ہے۔ اتر پردیش کے اس ’موت پور‘ میں پچھلے 48 گھنٹوں کے اندر 42 بچوں کی پھر موت ہو چکی ہے۔ یہ موتیں اسی منحوس بی آر ڈی میڈیکل کالج میں ہوئی ہیں جہاں آکسیجن کی کمی سے پچھلے ہفتے 62 بچوں کی موت ہوئی تھی۔ بی آر ڈی میڈیکل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر پی کے سنگھ ان اموات کے حوالے سے پلہ جھاڑ نے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف 7 بچوں کی موت انسیفیلائٹس یعنی دماغی بخار سے ہوئیں ہیں ۔ وہیں میڈیکل کالج کے سی ایم ایس پی کے شکلا نے ان اموات پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

پرنسپل ڈاکٹر پی کے سنگھ کا کہنا ہے کہ بی آر ڈی میڈیکل کالج میں اس وقت بہت زیادہ مریض بچے آ رہے ہیں اور جو موسم چل رہا ہے اس میں یہ موتین غیر معمولی نہیں ہیں کیوں کہ تمام طرح کے انتظامات ہونے کے باوجود مریضوں کی حالت اتنی خراب ہوتی ہے کہ ان کو بچانا مشکل ہو جاتا ہے۔ واضح رہے کہ 27 اگست کی رات 12 بجے تک 17 بچوں کی جبکہ 28 اگست کو 25 بچوں کی موتیں ہوئی ہیں۔ اسپتال میں 27 اگست کو کل بھرتی ہوئے مریضوں کی تعداد 342 تھی۔ 28 اگست کو این آئی سی یو میں 10 اور پی آئی سی یو میں 15 موتیں ہوئی ہیں۔ ان 15 بچوں میں سے 7 کی موت انسیفیلائٹس کے سبب ہوئی۔

کیا ہے گورکھپور سانحہ؟

بابا رگھو داس (بی آر ڈی میڈیکل کالج) میں 7 اگست سے لے کر 12 اگست تک 60 سے زائد کی موتیں ہوئی تھیں۔ الزام ہے کہ یہ موتیں اسپتا ل میں آکسیجن کی سپلائی بند ہونے کے باعث واقع ہوئیں۔

کہا جا رہا ہے کہ پشپا سیلس نامی کمپنی نے پیمنٹ کی ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے آکسیجن سلنڈر کی سپلائی بند کر دی تھی۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ 14 بار ریمائنڈر بھیجے لیکن اس کے باوجود ادائیگی نہیں کی گئی۔

آکسیجن کی کمی کی وجہ سے 30 سے زیادہ بچوں کی موت کے معاملے میں بی آر ڈی میڈیکل کالج کے سابق پرنسپل راجیو مشرا اور ان کی اہلیہ پورنیما شکلا کو پولس نے پیر کو کانپور سے گرفتار کر لیا ہے۔ اسی سلسلے میں ملزم بنائے گئے ڈاکٹر کفیل کی تلاش میں ایس ٹی ایف اور پولس ٹیم نے ان کے گھر پر چھاپے ماری کی لیکن وہ انہیں نہیں مل سکے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 30 Aug 2017, 11:48 AM