انٹرویو... ہند-پاک دوستی دونوں ممالک کے مفاد میں: کلدیپ نیر

’’یہ حقیقت ہے کہ پاکستان مذہب کی بنیاد پر تشکیل پایا تھا، لیکن 13 اگست کو ہی جناح نے صاف کہہ دیا تھا کہ ہر آدمی اپنے اپنے حساب سے مندر، مسجد یا گرودوارےجا سکتا ہے۔‘‘

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

وشو دیپک

ملک کی تقسیم، پاکستان سے جنگ، گاندھی کا قتل، نہرو کا دور، بنگلہ دیش کا بننا، پنجاب میں دہشت گردی، اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کا قتل، بابری مسجد انہدام... ہر ایک واقعہ جس نے ہندوستان کو بنایا بگاڑا ہے، مشہور صحافی کلدیپ نیر اس کے گواہ رہے تھے۔ 95 سال کی عمر میں 22 اگست کو ان کا انتقال ہو گیا۔ 12 اگست 2010 کو ان سے ایک انٹرویو لیا گیا تھا جسے ہم یہاں شائع کر رہے ہیں۔

آپ کی پیدائش 14 اگست کو ہوئی تھی۔ آپ اس تاریخ کو پیدا ہوئے جس تاریخ کو پاکستان بنا۔ اور آپ اس جگہ پیدا ہوئے تھے جو اب پاکستان میں ہے۔ بڑا دلچسپ اتفاق ہے۔ آپ کیا سوچتے ہیں!

ہاں، کیا کہیں اسے۔ اب اتفاق ہے تو ہے۔ میں 14 اگست 1923 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوا۔ لیکن ایک بات یہ ہے کہ پہلے میں پیدا ہوا اس کے بعد پاکستان پیدا ہوا۔

آپ کی تحریروں کو پاکستان حامی کیوں تصور کیا جاتا ہے؟

میں پاکستان حامی نہیں ہوں، لیکن پاکستان مخالف بھی نہیں ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ دونوں ممالک کے درمیان دوستی ہو۔ امن چین قائم ہو اور لوگوں میں رشتہ استوار ہو، تعلقات بہتر ہوں۔ لوگوں کی سطح پر بھی اور حکومت کی سطح پر بھی۔

یہ سچ ہے کہ پاکستان کی پیدائش مذہب کی بنیاد پر ہوئی تھی لیکن 13 اگست کو ہی جناح نے صاف کہہ دیا تھا کہ ہر آدمی اپنے اپنے حساب سے مندر، مسجد یا گرودوارے جا سکتا ہے۔ پاکستان کی پیدائش سے ایک دن پہلے ہی جناح نے سیاست سے مذہب کو الگ کر دیا تھا۔


جناح ہمارے ملک میں ویلن کے طور پر یاد کیے جاتے ہیں۔ ملک کی تقسیم کے لیے ذمہ دار ویلن کے طور پر ان کی شبیہ ہی ہندوستان کے لوگوں میں قائم ہوئی ہے۔کیا آپ کی جناح سے ملاقات ہوئی تھی؟

جناح دوسرے لیڈروں کی طرح مثال بگھارنے کا کام نہیں کرتے تھے اور نہ ہی تقریر کرتے تھے۔ ان کو جو کرنا تھا وہ کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ میں جس کالج میں پڑھتا تھا جناح وہاں ایک بار تقریر کرنے آئے تھے۔ جناح نے چھوٹا والا چشمہ اور ہرے رنگ کا سوٹ پہن رکھا تھا۔ لیکن وہاں سننے والوں کی کمی تھی۔ تو میرا ایک دوست حبیب، جو کشمیری تھا اور مسلم لیگ کا رکن تھا، اس نے ہم سب کو جناح کی تقریر سننے کو بلایا تھا۔ اس وقت تک ایسا ہو چکا تھا کہ ہندو کانگریس کے ساتھ جانے لگے تھے اور مسلمان مسلم لیگ کے ساتھ۔ لیکن اچھا ہوتا کہ جناح بھارت سے الگ نہ ہوتے۔

مہاتما گاندھی کو آپ نے پہلی بار کب اور کہاں دیکھا؟ اور آج جب پوری دنیا کو عدم تشدد کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، آپ گاندھی کو کس طرح یاد کرتے ہیں؟

دیکھیے، گاندھی جی سے میری سیدھی ملاقات کبھی نہیں ہوئی۔ میں نے گاندھی جی کو بڑلا ہاؤس کے لان میں دیکھا تھا۔ میں جب تقسیم کے بعد پاکستان سے آیا تو دریا گنج میں اپنی موسی کے یہاں رکا۔ 13 ستمبر کو میں پاکستان سے چلا تھا اور 15 یا 16 کو میں دہلی پہنچا۔ اور سیدھے بھاگ کر گاندھی کو دیکھنے کے لیے بڑلا ہاؤس پہنچا۔ اس وقت گاندھی جی لان میں ٹہل رہے تھے۔ میں نے ان کو دروازے کے باہر سے ہی پرنام کیا تھا۔ ہاں، جب ان کا قتل ہوا تھا تب میں نے اس واقعہ کو رپورٹر کے طور پر ضرور کور کیا تھا۔

آزادی کے بعد قومی زبان کے معاملے پر کافی تنازعہ ہوا تھا۔ کہتے ہیں کہ پنڈت نہرو انگریزی کو ’سبسیڈیری‘ زبان لکھنے جانے سے ناراض ہو گئے تھے اور پھر اس مسئلے میں آپ کو بھی وضاحت پیش کرنی پڑی تھی؟

دیکھیے، بات اس وقت کی ہے جب میں وزیر داخلہ پنڈت گووند بلبھ پنت کے ساتھ کام کر رہا تھا۔ نہرو وزیر اعظم تھے۔ نہرو پارلیمانی کمیٹی کی اس رپورٹ سے ناراض تھے جس میں پنت جی نے انگریزی کے آگے ’سبسیڈیری‘ لکھ دیا تھا۔ پنت جی ہی اس پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ تھے۔ تب پنت جی نے مجھ سے کہا کہ آپ دہلی کی ہر لائبریری کی خاک چھان ماریے اور جتنی بھی ڈکشنری ملے دیکھیے۔ میں نے کئی ڈکشنری دیکھی اور پھر پنت جی کو بتایا کہ سبسیڈیری اور ایڈیشنل قریب قریب ایک ہی معنی میں استعمال کیے جاتے ہیں۔

ایسا نہیں تھا کہ نہرو کے ذہن میں ہندی کو لے کر حقارت کا جذبہ تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ جو غیر ہندی زبان کے لوگ ہیں انھیں بھی ہندی آنی چاہیے۔ لیکن شمال مشرقی، جنوب کے لوگ تو بالکل بھی ہندی نہیں جانتے تھے۔ آزادی کے بعد ہی کہیں زبان کے مسئلے پر مخالفت نہ ہونے لگے، اسی لیے وہ چاہتے تھے کہ ہندی کو تب تک نہ نافذ کیا جائے جب تک غیر ہندی زبان لوگ اسے قبول نہیں کر لیتے۔

نہرو کو ایک سیاسی لیڈر اور ملک ساز کی شکل میں کس طرح یاد کرتے ہیں؟ جدید ہندوستان کی تعمیر کے لیے ان کی کیا سوچ تھی؟

نہرو سے میری دو تین مرتبہ کی ملاقاتیں ہیں۔ نہرو کی سوچ جدید تھی۔ انگریزی کے معاملے میں ان کی یہی سوچ کام کرتی تھی۔ ان کا ماننا تھا کہ انگریزی عالمی زبان ہے۔ میں نے سیالکوٹ میں پہلی بار نہرو کو دیکھا تھا۔ میرے خیال سے 1939 کے آس پاس کی بات ہے۔ انتخابی تشہیر پر آئے تھے۔ نہرو کا لباس تو وہی تھا جو وہ عام طور پر پہنتے تھے، لیکن اس دن نہرو نے گلاب نہیں لگا رکھا تھا۔ مجھے یاد ہے۔ ان کے ساتھ شیخ عبداللہ بھی تھے۔

کالج کے زمانے میں آپ جناح سے ملے۔ گاندھی کو بھی دیکھا اور نہرو کے ساتھ کام کیا، لیکن جب کتاب لکھنے کی باری آئی تو آپ نے بھگت سنگھ کو کیوں منتخب کیا؟ کیا آپ ان سے متاثر ہیں؟

ہاں، میں بھگت سنگھ سے متاثر ہوں۔ وہ 23 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ملک کے لیے شہید ہو گئے۔ ان کے نظریات زبردست طریقے سے انقلابی تھے۔ لیکن کتاب لکھنے کا خیال 80 کی دہائی میں لاہور میں آیا۔ میں وہاں گیا ہوا تھا ایک پنجابی سمیلن میں۔ وہاں میں نے دیکھا کہ پورے ہال میں صرف اور صرف ایک تصویر ہے۔ وہ ہے بھگت سنگھ کی۔ میں نے آرگنائزر سے پوچھا کہ یہاں تم لوگوں نے بھگت سنگھ کی تصویر کیوں لگا رکھی ہے۔ یہاں تو اقبال کی تصویر ہونی چاہیے، جنھوں نے پاکستان کا خواب دیکھا تھا۔ ان لوگوں نے کہا کہ صرف ایک ہی پنجابی نے ملک کے لیے قربانی دی ہے اور وہ ہے بھگت سنگھ۔ تبھی میں نے طے کر لیا کہ بھگت سنگھ اور ان کے نظریات کو ملک کے سامنے واضح کرنا ہے۔ ویسے تو ان کے بارے میں تقریباً ہر بات لکھی جا چکی ہے لیکن ایک انقلابی اور ایک دہشت گرد کے درمیان کے فرق کو تاریخی دریافت اور دلیلوں کے ذریعہ واضح کرنا ضروری تھا۔

بھگت سنگھ کی کیا اہمیت ہے آج کے زمانے میں؟ خاص طور سے تب جب ان کو گاندھی کے برعکس مانا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بھگت سنگھ کی بڑھتی مقبولیت سے گاندھی پریشان تھے۔ وہ چاہتے تو اِروِن کے ساتھ معاہدہ کے دوران بھگت سنگھ کو بچا سکتے تھے۔

بھگت سنگھ کی اہمیت پہلے بھی تھی اور آج بھی ہے، بلکہ میں تو ایسا کہتا ہوں کہ جیسے جیسے وقت گزرے گا، بھگت سنگھ کی اہمیت بڑھتی جائے گی۔ وہ نوجوان تھے اور ہیرو تھے۔ نوجوان طبقہ ہمیشہ بھگت سنگھ کے نظریات سے متاثر رہے گا۔ گاندھی کی بھی اہمیت بڑھے گی، لیکن دونوں کے درمیان فرق طریقوں کا ہے اور وہ رہے گا۔ بھگت سنگھ بندوق (تشدد) کا راستہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے اور گاندھی کو یہ منظور نہیں تھا۔ گاندھی کو تشدد قطعی منظور نہیں تھا۔ انھوں نے اِرون سے کہا بھی تھا کہ اس کو چھوڑ دیجیے۔ لیکن نہ تو بھگت سنگھ اپنا راستہ چھوڑنے کے لیے تیار تھے اور نہ ہی انگریز بھگت سنگھ کو چھوڑنا چاہتے تھے۔ گاندھی جی نے بھگت سنگھ کی مقبولیت سے ڈر کر نہیں بلکہ وہ انھیں اپنے اصولوں کی وجہ سے نہیں بچا پائے۔

صحافت میں آپ کا طویل تجربہ ہے۔ صحافت کے بارے میں آپ کیا محسوس کرتے ہیں... گزشتہ کئی سالوں میں تیزی سے بدلاؤ ہوئے ہیں۔ آپ نے شروعات تو اردو رپورٹر کے طور پر کی تھی؟

ہاں یہ درست ہے۔ میں نے اپنی صحافت اردو رپورٹر کے طور پر شروع کی تھی۔ جب میں پاکستان سے ہندوستان آ گیا اور چاندنی چوک میں رہ رہا تھا تو میرے احاطے میں ایک آدمی دن بھر کھانستا رہتا تھا۔ میں بڑا پریشان ہوتا تھا۔ میں نے لوگوں سے پوچھا کہ بھئی یہ کون ہے؟ پتہ چلا کہ وہ مولانا حسرت موہانی صاحب تھے۔ میں ان کے پاس گیا۔ انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا کرتے ہو؟ میں نے کہا کہ اردو رپورٹر ہوں۔ تب میں ’وحدت‘ کے لیے لکھا کرتا تھا۔ دھیرے دھیرے ان سے دوستی ہو گئی۔ انھوں نے مجھے دو صلاح دیں تھی۔ پہلا یہ کہ شعر و شاعری کرنا چھوڑ دو۔ دوسرا، اردو میں نہیں انگریزی میں لکھنا شروع کرو۔ ملک میں اردو کا کوئی مستقبل نہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔