گوا: شیواجی کے مجسمہ کا افتتاح کر لوٹ رہے وزیر پر حملہ، گاؤں والوں نے عائد کیا سنگین الزام

ایک خاتون نے بتایا کہ ہم نے ریاستی وزیر سے پوچھا کہ اس کی اجازت کیسے دی گئی تو انھوں نے کہا کہ وہ اس پر بعد میں بات کریں گے اور جب ہم نے اس کی مخالفت کی تو پولیس نے ہم پر لاٹھی چارج کر دیا۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر سوشل میڈیا</p></div>

تصویر سوشل میڈیا

user

قومی آوازبیورو

گوا کی بی جے پی حکومت میں سماجی فلاح کے وزیر سبھاش پھال دیسائی پر پیر کے روز تقریباً 300 لوگوں کی بھیڑ نے پتھروں سے حملہ کر دیا۔ حملہ اس وقت ہوا جب وہ جنوبی گوا کے ساؤ جواؤ ڈی ایریل گاؤں میں چھترپتی شیواجی مہاراج کے مجسمہ کا افتتاح کر کے لوٹ رہے تھے۔ گاؤں کے لوگوں کا الزام ہے کہ مجسمہ مبینہ طور پر مقامی پنچایت سے اجازت لیے بغیر ناجائز طریقے سے نصب کیا گیا ہے۔

بی جے پی لیڈر اور وزیر سبھاش پھال دیسائی کا اس واقعہ کے تعلق سے کہنا ہے کہ جیسے ہی وہ اپنی گاڑی کے پاس پہنچے، بھیڑ نے پیچھے سے ان پر پتھروں سے حملہ کر دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’انھوں نے مجھ پر پیچھے سے پتھر مارے۔ تقریباً 200 سے 300 لوگوں کی بھیڑ تھی۔ مجھے کوئی سنگین چوٹ نہیں آئی، لیکن میرے سر پر پتھر لگا جس سے وہاں پر زخم بن گیا ہے۔‘‘


سبھاش پھال دیسائی کا کہنا ہے کہ انھیں شیواجی مہاراج کی جینتی پر ان کے مجسمہ کا افتتاح کرنے کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ میں مجسمہ کا افتتاح کر کے لوٹ رہا تھا جب لوگوں نے مجھ پر حملہ کر دیا۔ انھوں نے بتایا کہ حادثہ کے دوران پولیس موجود تھی جس نے حالات کو اچھی طرح سنبھالا۔ حالانکہ مقامی لوگوں کا الزام ہے کہ شیواجی کا مجسمہ مبینہ طور پر مقامی پنچایت سے اجازت لیے بغیر ناجائز طور پر نصب کیا گیا ہے۔

ساؤ جواؤ ڈی ایریل کی ایک خاتون نے کہا کہ ’’جو لوگ مجسمہ نصب کرنے کے لیے موجود تھے وہ مقامی نہیں تھے۔ پولیس اور افسر ان کی شناخت کرنے میں ناکام رہے۔ ہم نے وزیر پھال دیسائی سے پوچھا کہ اس کی اجازت کیسے دی گئی، تو انھوں نے کہا کہ وہ اس معاملے پر بعد میں بات کریں گے۔ جب ہم نے اس قدم کی مخالفت کی تو پولیس نے ہم پر لاٹھی چارج کیا۔‘‘


مقامی خاتون کا کہنا ہے کہ اگر وہ اسے قانونی طور سے کر رہے ہوتے تو ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ ہمیں ایسے واقعات کی مذمت کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں تک کہ افسر بھی مقامی لوگوں کی حمایت نہیں کر رہے ہیں۔ اس درمیان علاقہ میں زبردست کشیدگی ہے اور نظامِ قانون برقرار رکھنے کے لیے کثیر تعداد میں پولیس فورس کی تعیناتی کی گئی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔