شرم کرو! بیٹیوں کو سر اٹھا کر چلنے کی اجازت نہیں

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

آس محمد کیف

ملک کے موجودہ ’نگہبا ن‘ نے بیٹیوں کو بہتر مستقبل دینے کے وعدے اور ’بہو ،بیٹی بچاؤ‘ جیسے عنوان سے ہونے والی پنچایتوں کے ذریعے اقتدار حاصل کیا لیکن بیٹیوں کی حرمت کی انہیں ذرا بھی پرواہ ہو ایسا زمین پر تودکھائی نہیں دے رہا۔مغربی یو پی کے شاملی میں کچھ ایسا ہی ہو رہا جس کی وجہ سے بیٹیوں کو سر جھکا کر چلنا پڑتا ہے۔ دراصل یہاں کی اسکول جانے والی بیٹیاں چھیڑ خانی سے اتنا تنگ آ چکی ہیں کہ انہوں نے اب سر اٹھانا ہی چھوڑ دیا ہے۔ ا س چھیڑ خانی نامی بیماری کا جس نے بھی یہ حل تجویز کیا ہے اس کی سوچ پر تو شرم آ نی ہی چاہئے ساتھ میں خود ساختہ رہنماؤں اور افسران سے بھی سوال پوچھنا چاہئے کہ کیا وہ اپنا کام کر رہے ہیں اور اگر کر رہے ہیں تو پھر ایسا کیوں ہو رہا ہے کہ جن بیٹیوں کو سر اٹھاکر چلنے کے لئے حوصلہ افزائی کرنی چاہئے ان کو سر نیچے کر کے چلنا پڑ رہا ہے۔ آس پاس کے گاؤں سے شاملی پڑھنے آنے والی لڑکیاں ٹریکٹر سے آتی ہیں اور راستے میں کان دبا کر اور سرجھکا کر بیٹھی رہتی ہیں۔ اس شرم ناک سلسلہ نے سوچنے پر مجبور کر دیا ہے ۔

شاملی وہی جگہ جہاں پر بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ حکم سنگھ نے سب سے پہلے ’بہو بیٹی بچاؤ‘ نعرے کو ایجاد کیا تھا، اسی کی بنیاد پر مظفر نگر کے سکھیڑا میں مہا پنچایت ہوئی جس کے نتیجے میں مظفرنگر کے ماتھے پر بد نما داغ لگا دینے والا فساد ہوا۔ مظفر نگر فساد کی آگ میں شاملی ضلع سب سے زیادہ جھلسا تھا۔

عزت کے لئے ہمیشہ لڑتے رہنے والے یہاں کے نام نہاد چودھری آج بیٹیوں کی سر عام ہو رہی بے عزتی پر خاموش ہیں۔ یہاں کے ہندو انٹر کالج میں آس پاس کے گاؤں کی لڑکیاں پڑھنے آتی ہیں ، جن راستوں سےوہ گزرتی ہیں وہاں ان پر فقرے کسے جاتے ہیں ، اس 7 کلومیٹر کے راستے کے دوران یہ لڑکیاں اپنا سرتک نہیں اٹھا پاتی ہیں۔ اتنا ہی نہیں جب اس حوالے سے ایک مقامی اخبار میں خبر شائع ہوئی تو اس اخبار پر سینکڑوں لوگوں نے حملہ کر دیا اور صحافی کی پٹائی بھی کر دی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا

معاملہ گوہرنی گاؤں کا ہے جو شاملی سے 7 کلومیٹر دور ہے۔ یہاں کی درجنوں لڑکیاں شاملی کے ہندو گرلز کالج میں پڑھتی ہیں۔ پہلے ان لڑکیوں کو اسکول آنے میں بہت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا اس لئے کم لڑکیاں پڑھنے جاتی تھیں۔ لیکن گزشتہ کچھ سالوں سے فوج کی ملازمت سے سبکدوش ہوئے ستپال سنگھ نے اس کا حل ڈھونڈھ لیا اور اپنے ٹریکٹر پر بنچ نصب کرکے انہیں شاملی اسکول لانے لے جانے لگے ۔ اس کے لئے وہ فی طالبہ 300 روپے ماہانہ لیتے ہیں۔ اس کے بعد اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کی تعداد بڑھ گئی ۔ لڑکیوں کے اس اسکول سے ملحق کئی لڑکوں کے اسکول بھی ہیں جن میں آس پاس کے گاؤں سے ہی طلبہ آتے ہیں۔

جس وقت لڑکیاں اکٹھا ہو کر ٹریکٹر سے اسکول جا رہی ہوتی ہیں تو لڑکے ان پر فقرے کستے ہیں اور نا زیبا اشارے بھی کرتےہیں۔ جب حرکتیں بڑھنے لگیں تو لوگوں نے اپنی بیٹیوں کا اسکول جانا چھڑوا دیا ، لیکن کچھ نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ انہوں نے اپنی لڑکیوں سے کہا کہ وہ جب اسکول جائیں گی تو پورے راستہ سر نہیں اٹھائیں گی ! لڑکیوں سے یہ بھی کہا گیا کہ اگر انہیں کوئی لڑکا کچھ کہتا ہے تو وہ کسی بھی حالت میں اس لڑکے سے نہ تو بات کریں گی اور نہ ہی کوئی رد عمل ظاہر کریں گی ۔ وہ صرف خاموشی سے گھر پہنچ کر اس بات کی شکایت کریں گی۔اگر اس بیچ کسی لڑکی نے چھیڑخانی کی شکایت کی تو اس کے اسکول جانے پر روک لگا دی گئی۔ اس کے باوجود لڑکوں کی چھیڑ خانی تو بند نہیں ہوئی البتہ اتنا ضرور ہوا کہ پڑھنے لکھنے کی خواہش رکھنے والی مجبور بچیوں نے گھر پر شکایت کرنا بند کر دیا ۔

26 نومبر کو ایک مقامی اخبار میں سرجھکا کر اسکول جاتی ان لڑکیوں کا فوٹو چھپ گیا اس کے بعد مبینہ طور پر وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اس پر ناراضگی کا اظہار کی۔مقامی انتظامیہ میں بھی اس بات کو لے کر ہنگامہ ہو ا۔ ڈی ایم شاملی اندر پال سنگھ نے پہلے اسے معمولی واقعہ قرار دیا ، بعد میں لڑکیوں کے لئے ای رکشہ اور بس کا انتظام کرنے کا بھروسہ دلایا۔ اس کے بعد گاؤں میں پنچایت ہوئی اور اخبار کے شاملی واقع دفتر پر سینکڑوں افراد نے پٹرول بم اور لاٹھی ڈنڈوں سے لیس ہو کر حملہ کر دیا۔ ایک نامزد اور 40 نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔

گاؤں میں لڑکیوں کی پڑھائی کو لے کر مسلسل پنچایت ہو رہی ہے۔ لڑکیوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ میڈیا کے کسی آدمی سے بات نہیں کریں گی۔ساتھ ہی گاؤ ں میں میڈیا کے داخلہ پر روک لگا دی گئی ہے۔

شاملی کے زیر بحث اس معاملہ میں مختلف طرح کے خیالات سامنے آ ئے ہیں۔ ’نئی پہل ‘ نامی غیر سرکاری تنظیم چلانے والے شاہنواز علی کا کہنا ہے کہ چھیڑ خانی کرنے والے، گندی سیاست کرنے والوں کے لئے کام کے نہیں ہیں ، ورنہ ایک اور مظفرنگر جیسا فساد ہو جاتا۔

کیرانہ کے رکن پارلیمنٹ مسلمانوں کے خلاف قابل اعتراض تبصرے کرنے کے لئے جانے جاتے ہیں ۔ حال ہی میں انہوں نے مسلمانوں کو ’بلاتکاری ‘ قرار دے دیا تھا۔ اس سے قبل وہ کیرانہ کی نقل مکانی کو بھی فرقہ وارانہ رنگ دینے میں کامیاب ہوئے تھے۔ لیکن اس واقعہ پر حیرت انگیز طریقہ سے وہ خاموش ہیں۔ اب انہیں بیٹیوں کی عزت کا ذرا بھی خیال نہیں ہے۔ مقامی دبنگوں کی طرف سے بھی اس مسئلہ کے حل کے لئے سامنے نہ آنا بے حد شرم ناک ہے۔ خبر شائع ہو نے پر ہو ئےحملہ کے بعد سے صحافیوں میں بھی خوف ہے اور اب وہ بھی اس معاملہ میں کچھ لکھنے سے گریز کر رہے ہیں۔

اس معاملہ میں سماجی کارکن بھی ڈر کے مارے کچھ نہیں بول رہے ہیں۔ سماجوادی رہنما نفیس کا کہنا ہے کہ ’ چھیڑخانی کرنے والے خود ان کے اپنے ہیں اس لئے وہ خاموش ہیں دوسرے طبقہ کے ہوتے تو اب تک خون کے دریا بہہ چکے ہوتے۔‘‘

گاؤں کے روال یہ کہہ کر گاؤں والو ں کا بچاؤ کرنے کی کوشش کر تے ہیں کہ بچیوں کا سر جھکاکر اسکول جانا تو ہماری روایت کا حصہ ہے اور اس کا چھیڑخانی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔لڑکیوں کو لانے لے جانے والے ستپال کہتے ہیں کہ لڑکیوں کے ساتھ مسلسل چھیڑخانی ہوتی ہے اور غیر سماجی عناصر کسی سے نہیں ڈرتے۔ فی الحال یہ معاملہ علاقہ میں بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمالکریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 07 Nov 2017, 9:42 PM