بچوں کو کھیلوں میں شامل کریں ورنہ وہ زیادہ وقت اسکرین پر گزاریں گے: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے کھیلوں کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بچوں کو کھیلوں میں شامل ہونے دیں ورنہ وہ زیادہ وقت نئے گیجٹس پر گزاریں گے۔

سپریم کورٹ، تصویر یو این آئی
سپریم کورٹ، تصویر یو این آئی
user

قومی آوازبیورو

سپریم کورٹ نے مرکز اور ریاستوں سے ایک عرضی پر جواب طلب کیا ہے جس میں کھیلوں یا فزیکل ایجوکیشن کو آئین کے تحت بنیادی حق بنانے کے لیے کہا گیا ہے۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ بچوں کو کھیلوں میں شامل کرنا مفید ہوگا ورنہ وہ زیادہ وقت نئے گیجٹس پر گزاریں گے۔

کنشک پانڈے کی طرف سے 2018 میں ایک عرضی دائر کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ کھیلوں کو آرٹیکل 21A کے تحت بنیادی حق دیا جائے۔ اس عرضی پر جسٹس ایل ناگیشور راؤ اور بی آر گاوائی کی بنچ نے کہا کہ ’’کھیلوں میں شامل بچے بہت مفید ہوں گے، ورنہ وہ اسکرین یعنی نئے گیجٹس پر وقت گزاریں گے۔‘‘


سپریم کورٹ نے سال 2019 میں سینئر وکیل گوپال شنکر نارائنن کو اس معاملے کی جانچ کے لیے امیکس کیوری (عدالت کے دوست) کے طور پر مقرر کیا تھا اور انہوں نے خاص طور پر مشورہ دیا تھا کہ اسکول کے اوقات کے بعد اسکول کے پڑوس میں رہ رہے بچوں کے لئے اسکول کھول دینا چاہئے۔

بنچ نے افسوس کا اظہار کیا کہ جن بچوں کی بارہویں جماعت تک کھیلوں میں کارکردگی بہت اچھی رہتی ہے وہ بھی اس کھیل کو بھول جاتے ہیں، کیونکہ طلباء کھیلوں کو کیرئیر کے طور پر نہیں دیکھتے۔ اس موقع پر عدالت نے کرکٹر وی وی ایس لکشمن کی مثال دی، جن کے والدین ڈاکٹر تھے پھر بھی انہوں نے کرکٹ کو اپنے کیریئر کے طور پر منتخب کیا۔


درخواست گزار کی نمائندگی سینئر ایڈوکیٹ وکاس سنگھ نے کی جنہوں نے کہا، ’’بد قسمتی سے ہندوستان میں کھیل کو کیریئر کے طور پر نہیں دیکھا جاتا۔‘‘ ریاست آندھرا پردیش نے عدالت میں عرض کیا کہ اس کی فزیکل ایجو کیشن کی پالیسی ہے جس میں ہر تعلقہ میں کھیلوں کا اسٹیڈیم بنانے پر زور دیا گیا ہے۔

بنچ نے نوٹ کیا کہ آندھرا پردیش نے کامیابی سے بیڈمنٹن کھلاڑی پیدا کیے ہیں اور ہریانہ میں بھی پہلوانوں کے شعبہ میں یہی رجحان ہے۔ مرکز کی جانب سے پیش ہوئے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل (اے ایس جی) کے ایم نٹراج نے کہا، ’’مرکز ہر کھیل کی مدد کرنے کے حق میں ہے۔‘‘ بنچ نے کہا کہ امیکس کیوری کی طرف سے پیش کی گئیں سفارشات کے "دور رس نتائج" ہوں گے۔ عدالت نے کہا کہ مختلف حکومتوں کے خیالات کا پتہ لگانے کے بعد ہی کوئی حتمی حکم جاری کیا جا سکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔