543 پارلیمانی حلقوں میں سے محض 35 میں استعمال ہوا ایم پی فنڈ

یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یہ فنڈ سیدھا رکن پارلیمنٹ کو نہیں ملتا بلکہ وہ جن ایجنسیوں سے کام کرواتے ہیں ان کو منصوبے بنا کر دینے ہوتے ہیں پھروہ رقم ان منصوبوں کے لئے استعمال ہو تی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

مرکزی وزارت برائے اسٹیٹکس اینڈ پروگرام امپلی منٹیشن کی جانب سے جاری تازہ اعداد و شمار کے مطابق سال 2014 میں منتخب ہوئے کل 543 ارکان پارلیمنٹ میں سے محض 35 حلقے ایسے ہیں جن کے منتخب ارکان نے اپنا پورا ایم پی فند (اراکین پارلیمنٹ فنڈ برائے علاقائی ترقیاتی منصوبہ) استعمال کیا ہے۔ انگریزی روزنامہ ٹائمز آف انڈیا نے اس حوالہ سے جو رپورٹ شائع کی ہے اس کے مطابق مغربی بنگال، گجرات، اتر پردیش اور ہریانہ وہ ریاستیں ہیں جہاں ایک یا اس سے زیادہ انتخابی حلقوں میں وہاں کے منتخب ارکان نے اپنا ایم پی فنڈ پورا استعمال کیا ہے اور ان میں بھی مغربی بنگال وہ ریاست ہے جہاں دس پارلیمانی حلقوں میں پورا ایم پی لیڈ فند استعما ل کیا گیا ہے یعنی ان حلقوں کے ارکان پارلیمنٹ نے ایم پی لیڈ فند کے لئے مختص کئے گئے 25 کروڑ روپے کا یوٹیلائیزیشن سرٹیفکیٹ لے لیا ہے۔

واضح رہے اس ہیڈ میں ایک ارکان پارلیمنٹ کو5 سال میں 25 کروڑ روپے کا فنڈ دیا جاتا ہے اور یہ دو قسطوں میں دیا جاتا ہے ۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یہ فنڈ سیدھارکن پارلیمنٹ کو نہیں ملتا بلکہ وہ جن ایجنسیوں سے کام کرواتے ہیں ان کو منصوبے بنا کر دینے ہوتے ہیں پھروہ رقم ان منصوبوں کے لئے استعمال ہو تی ہے۔ واضح رہے جنوبی ہندوستان کے کسی بھی پارلیمانی حلقہ میں یہ فنڈ پورا استعمال نہیں ہوا ہے۔

مرکزی وزیر برائے اسٹیٹکس اینڈ پروگرام امپلی منٹیشن ڈی وی سدا نند گوڈا نے 19 دسمبر کو لوک سبھا میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ وزارت کی طرف سے ہر حلقہ انتخاب کو دو قسطوں میں 5 کروڑ روپے جاری کرتی ہے ۔ گوڈا نے اس کے جواب میں مزید بتایا کہ حکومت اس پر غور کر رہی ہے کہ اس کو اب دو قسطوں کی جگہ ایک ہی قسط میں دیا جائے تاکہ زیادہ کام ہو سکے اور کوئی بھی منصوبہ مالی کمی کی وجہ سے نہ رکے۔

وہیں سابق مرکزی وزیر اور تمل ناڈو کے پٹالی مکل کانچی سے رکن پارلیمنٹ رام داس نے کہا کہ ایک ہی سال میں پروجیکٹ مکمل کر کے یوٹیلائیزیشن سرٹیفکیٹ لینا ناممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں گزشتہ چار سالوں میں اپنے حلقے کے ضدی رویہ کی وجے سے ایک بھی پروجیکٹ مکمل نہیں کر پایا ہوں۔‘‘

حکومت کو اگر ساڑھے چار سال بعد عام انتخابات سے چند ماہ قبل اس بات کا احساس ہو رہا ہے کہ یہ فنڈ دو قسطوں کی جگہ ایک ہی قسط میں ادا کیا جائے تاکہ ارکان پارلیمنٹ کو کام کرانے میں کوئی دشواری نہ آئے تو یہ حکومت کی کارکردگی اور سوچ پر بڑا سوال کھڑا ہوتا ہے ۔ یہ اعداد و شمار اس جانب بھی اشارہ کر تے ہیں کہ ہمارے منتخب نمائندہ اپنے پارلیمانی حلقوں کے کاموں کے لئے کتنے سنجیدہ ہیں ۔ مودی حکومت نے جن ترقیاتی کاموں کی رفتار میں تیزی لانے کی بات کہی تھی وہ بھی ایک اور جملہ ثابت ہوا ہے کیونکہ اگر 553 پارلیمانی حلقوں میں سے محض ۳۵ پارلیمانی حلقوں میں ارکان پارلیمنٹ کا فنڈ استعمال ہوا ہے تو پھر ترقیاتی کام ہوئے کہا ں ہیں ؟۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔