اتراکھنڈ: شکایت کنندہ کو آفس میں پیٹنے کا معاملہ، پتھورا گڑھ کے سابق ایس پی قصوروار قرار
اس سنگین معاملے کی سماعت کے دوران جسٹس این ایس دھانک کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے تسلیم کیا کہ ایس پی کے بیانات قابل اعتبار نہیں ہیں، جبکہ شکایت کنندہ کے بیان کی میڈیکل رپورٹ سے تصدیق ہوئی ہے۔

راجستھان کے پتھورا گڑھ کے سابق پولیس کپتان اور ریٹائرڈ آئی پی ایس افسر لوکیشور سنگھ کے خلاف سنگین الزامات ثابت ہو چکے ہیں۔ ریاستی پولیس شکایات اتھارٹی نے انہیں 2023 کے ایک واقعے میں شکایت کنندہ کو ہراساں کرنے کا قصوروار پایا اور حکومت کو مجرم کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے کی ہدایت کی۔
یہ واقعہ 6 فروری 2023 کو اس وقت پیش آیا جب آر ٹی آئی کارکن اور کپڑا تاجر لکشمی دت جوشی صفائی کے انتظامات کے بارے میں شکایت کرنے ایس پی کے دفتر پہنچے تھے۔ جوشی کا الزام ہے کہ ایس پی لوکیشور سنگھ انہیں دفتر سے متصل ایک کمرے میں لے گئے، جہاں کوئی سی سی ٹی وی کیمرہ نہیں تھا۔ وہاں انہیں پہلے برہنہ کیا گیا اور پھر مار پیٹ کی گئی۔ یہ بھی الزام ہے کہ ان کے ماتحتوں نے بھی جوشی پر ہاتھ اٹھایا اور بعد میں انہیں پچھلے دروازے سے باہرنکال دیا۔
واقعے کے فوراً بعد لکشمی دت جوشی نے ضلع اسپتال میں اپنا طبی معائنہ کرایا جس میں چوٹیں 12 سے 24 گھنٹے کے اندر کی پائی گئیں۔ شکایت کنندہ کے پاس ایکسرے رپورٹ بھی تھی، جسے اتھارٹی نے قابل اعتبار سمجھا۔ دوسری طرف لوکیشور سنگھ نے اپنے تحریری جواب میں ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے لکشمی دت جوشی کو’مجرمانہ فطرت‘ کا بتایا اور کہا کہ انہیں آتش زنی کے ایک معاملے میں پوچھ گچھ کے لیے بلایا گیا تھا۔ تاہم انہوں نے اپنے دعوؤں کی حمایت میں کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کیا۔
لکشمی دت جوشی نے بتایا کہ ان کے خلاف درج تمام مقدمات میں مدعی پولیس اہلکار ہیں اور کسی میں بھی انہیں مجرم نہیں ٹھہرایا گیا ہے۔ جسٹس این ایس دھانک کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے تسلیم کیا کہ ایس پی کے بیانات قابل اعتبار نہیں ہیں، جبکہ شکایت کنندہ کے بیان کی میڈیکل رپورٹ سے تصدیق ہوئی ہے۔ پوری سماعت کے بعد بنچ نے نتیجہ اخذ کیا کہ شکایت کنندہ کو برہنہ کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جو محکمہ پولیس کی شبیہ کو داغدار کرنے والا سنگین فعل ہے۔
بتادیں کہ لوکیشور سنگھ نے اکتوبر 2024 میں پوڑی ضلع کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) رہتے ہوئے اقوام متحدہ سے وابستہ تنظیم میں منتخب ہونے کے بعد استعفیٰ دے چکے ہیں۔ 28 نومبر کو مرکزی حکومت نے ان کا استعفیٰ قبول کر لیا تھا۔