سابق نوکرشاہوں نے مودی حکومت کے طریقۂ کار پر انگلی اٹھائی

سول سروس اورڈیفنس سروس میں اعلیٰ عہدوں پر کام کر چکی شخصیتوں نے پہلی بار ایک ساتھ بیٹھ کر آئین اور ان سروسز پر منڈلا رہے خطرات پر مذاکرہ کیا۔

تصویر بھاشا سنگھ
تصویر بھاشا سنگھ
user

بھاشا سنگھ

راجدھانی دہلی میں ’انڈیا انکلوسیو‘ کے ذریعہ منعقد ’سٹیزن کنکلیو‘ میں یہ بات ابھر کر سامنے آئی کہ گزشتہ چار سالوں کے دوران سیاسی مداخلت اور دباؤ بہت بڑھا ہے جس کی وجہ سے آئین کے تحت ملے اختیارات خطرے میں ہیں۔ ’انڈیا انکلوسیو‘ کے اس انعقاد میں ایڈمرل رام داس، ڈاکٹر اتل بھاردواج، این سی سکسینہ، ائیر مارشل ویر نارائن، وجاہت حبیب اللہ، ائیر مارشل کپل کاک، کوموڈور لوکیش کے بترا، ارونا رائے، اشوک واجپئی، ڈاکٹر ٹک ٹک گھوش وغیرہ نے موجودہ ماحول پر تبادلہ خیال کیا۔

ایڈمرل رام داس نے کہا کہ ’’ہندوستان کی سب سے پاکیزہ کتاب آئین ہے اور اسی پر اس حکومت نے حملہ کیا ہے۔ چاہے وہ ڈیفنس سروس ہو یا سول سروس، سب کی ذمہ داری ملک کے عوام کے تئیں ہے۔ لیکن اب سیاسی عزم کو ہی نیا ضابطہ بنایا جا رہا ہے اور یہ خطرناک ہے۔ ’قومی آواز‘ سے بات کرتے ہوئے ایڈمرل رام داس نے بتایا کہ کشمیر کو آگے رکھ کر قصداً کشیدگی پیدا کی جا رہی ہے تاکہ ملک بھر میں اس کی بنیاد پر کشیدگی پیدا ہو اور مودی حکومت کو فائدہ ہو۔

اس پروگرام میں ائیر مارشل کپل کاک نے بھی سول اور ڈیفنس سروس کے سیاسی کنٹرول پر سوال اٹھایا۔ انھوں نے کہا کہ ڈیفنس سروس کو سول سروس کے افسر اپنے کنٹرول میں رکھتے ہیں جس کی وجہ سے ڈیفنس سیکٹر کی ضرورتوں پر ٹھیک ڈھنگ سے دھیان نہیں دیا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جو حالات بن گئے ہیں اس میں ان سروسز کی آزادی اور ایمانداری کو بچانا بہت مشکل ہے۔ جموں و کشمیر کا حوالہ دیتے ہوئے ائیر مارشل کاک نے کہا کہ وہاں کے حالات لگاتار خراب ہو رہے ہیں۔ کشمیر میں آنے والے دن اور باعث فکر ہونے جا رہے ہیں۔

پلاننگ کمیشن کے سبکدوش سکریٹری سینئر آئی اے ایس افسر این سی سکسینہ نے حال کے دنوں میں جن افسران کا اچھا کام کرنے کے لیے استحصال کیا گیا، ان کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ماحول ایسا بنا دیا گیا ہے کہ اگر آپ صحیح ڈھنگ سے کام کرتے ہیں، ضابطوں پر عمل کرتے ہیں اور ہمت والے ہیں تو آپ کی چھٹی کر دی جائے گی۔ چاہے وہ دُرگا شکتی ناگپال کا معاملہ ہو یا سنجیو چترویدی یا پھر پولس افسر روپا کا۔‘‘ ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ سیاسی دباؤ ابھی ڈالا جا رہا ہو، ایسا پہلے سے ہوتا رہا ہے، لیکن اب معاملہ سیدھا سیدھا ہو گیا ہے۔ انھوں نے سول سروس کے افسران کے فرقہ وارانہ رنگ اور جھکاؤ کے بارے میں کھل کر بات کی اور بتایا کہ 1992 میں بابری مسجد انہدام کے بعد مسوری اکادمی میں جشن منایا گیا تھا، مٹھائیاں تقسیم ہوئی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ مسلم مخالف سوچ اندر تک بیٹھی ہوئی ہے۔

ملک کے سابق چیف انفارمیشن کمشنر وجاہت حبیب اللہ نے اس بات پر زور دیا کہ اب سول سروس میں جانے والے لوگوں کا گروپ بھی بدلا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’بڑے پیمانے پر عام پس منظر کے لوگ، مسلم نوجوان اور پروفیشنل اس میں جا رہے ہیں۔ ایسے میں یو پی ایس سی کو غیر جانبدار بنائے رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’آئین کی حفاظت کرنا ہماری پہلی ذمہ داری ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہم سول سروس میں تبدیلی چاہتے ہیں، اسے مزید عوامی مفاد میں ہونا چاہیے۔ لیکن جس طرح سے مودی حکومت کر رہی ہے، اچانک اور یکطرفہ، وہ خطرناک ہے۔ یو پی ایس سی کی ساکھ کو بچانا ہے، اسے منہدم نہیں ہونے دینا ہے۔‘‘

حکومت ہند میں سابق سکریٹری برائے مالیات ڈاکٹر ٹک ٹک گھوش نے کہا کہ ’’سول سروس کو بہت اہم بتانے اور ظاہر کرنے کی کوشش ہوتی ہے جو غلط ہے۔ ہم ہمیشہ سیاسی لیڈروں کی آنکھ میں چمکنے کی کوشش کرتے ہیں، اپنے کام کرنے کی نہیں۔‘‘ انھوں نے مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر پردھان سیوک (وزیر اعظم) تجارت کرنے میں سہولت (ایز آف ڈوئنگ بزنس) کے بارے میں بولتے ہیں تو سارے نوکرشاہ اسی میں لگ جاتے ہیں۔ کوئی نہیں سوچتا کہ زندگی جینے کے بہتر حالات (ایز آف لیونگ) کے بارے میں کام کرنا ضروری ہے۔‘‘ انھوں نے کہا کہ نوکرشاہی کو خود کو دیکھنا بہت ضروری ہے تبھی ادارے مضبوط ہو سکتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔