’قرآن پاک سے متعلق عرضی عدالت عظمیٰ میں دائر کرنا تعزیرات ہند کے تحت جرم‘

پروفیسرمحمود نے کہ 1984 میں کلکتہ ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ ”عدالت کا قرآن کے معاملہ کا نوٹس لینا ملکی آئین کے خلاف ہوگا اور مدعیان نے عدالت میں یہ معاملہ اٹھا کر قانوناً ایک جرم کا ارتکاب کیا ہے“۔

سپریم کورٹ / آئی اے این ایس
سپریم کورٹ / آئی اے این ایس
user

یو این آئی

نئی دہلی: قومی اقلیتی کمیشن کے سابق چیرمین اور لا کمیشن آف انڈیا کے سابق رکن پروفیسر طاہر محمود نے کلام پاک سے متعلق سپریم کورٹ میں دائر کردہ پٹیشن پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ فرقہ وارانہ فتنہ انگیزی کی یہ بدترین کوشش بجائے خود تعزیرات ہند کی دفعات 53A 1 اور 295A کے تحت سنگین جرائم کے زمرے میں آتی ہے۔

آج یہاں جاری ایک بیان میں انھوں نے بتایا کہ ان میں سے پہلی دفعہ مذہب کی بنیاد پر بدامنی پھیلانے کی کوشش کو جرم قرار دیتی ہے اور دوسری صاف طور پر کہتی ہے کہ ”جو کوئی شخص ہندوستان کے شہریوں کے کسی طبقے کے مذہبی جذبات بھڑکانے کی نیت سے زبانی یا تحریری طور پر اس کے مذہب کی توہین کرتا ہے یا ایسا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے تین سال تک کی قید اور جرمانے کی سزا دی جائے گی“۔


انھوں کہا کہ عدالت عظمیٰ کو ان دفعات کا از خود نوٹس لیتے ہوئے مدّعی کے خلاف تعزیری کارروائی کی متعلقہ حکام کو ہدایت دینی چاہیے۔ پروفیسرموصوف نے مزید بتایا کہ 1984 میں مسلمانوں کی مقدس کتاب کے خلاف کلکتہ ہائی کورٹ میں ایک اسی قسم کا کیس دائر کیا گیا تھا جسے عدالت نے خارج کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ ”عدالت کا اس معاملہ کا نوٹس لینا ملکی آئین کے قطعاً خلاف ہوگا اور مدعیان نے عدالت میں یہ معاملہ اٹھا کر قانوناً خود ایک جرم کا ارتکاب کیا ہے“۔ پروفیسرمحمود نے کہا ہے کہ یوں تو یہ نظیر بھی عدالت عظمیٰ کے علم میں ہوگی مگر اسے خود ہی اس مذموم فتنہ انگیزی کے لئے عدالت کا سہارا لئے جانے کی اجازت ہرگز نہیں دینی چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔