دیوالی کے تہوار پر اُلووں کی شَامت کیوں!

دیوالی پر لوگ اپنے گھروں میں چراغاں کرتے ہیں لیکن ایسے میں اُلووں کی جان پر بن آتی ہے کیوں کہ بعض لوگ انہیں اپنی خوش قسمتی اور خوشحالی کے لیے بھینٹ چڑھاتے ہیں

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ڈی. ڈبلیو

لکشمی دیوی دولت کی علامت ہیں جن کی دیوالی کے موقع پر پوجا کی جاتی ہے۔ ہندو عقیدے کے مطابق الو، لکشمی کی سواری ہے اور اگر اس کی قربانی دی جائے تو لکشمی ان کے گھر پر رکنے پر مجبور ہوجاتی ہے اور پورا سال ان کے گھر میں مال کی ریل پیل رہتی ہے۔

یہ کہنا مشکل ہے کہ دیوالی کے موقع پر کتنے الووں کی بھینٹ چڑھائی جاتی ہے تاہم وائلڈ لائف کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کی تعداد ہزاروں میں ہوتی ہے اور دیوالی کے روز شام کوپوجا کے آغاز کے ساتھ ہی ان کی قربانی کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔


دہلی میں پرندوں کے ماہر بکرم گریوال کا کہنا ہے کہ الو کے جسم کے مختلف حصوں مثلاً اس کی ہڈیاں، ناخن، پروں، چونچ حتی کہ خون کی مانگ بھی پورے سال رہتی ہے۔ اس کے مختلف حصے جادو ٹونا کرنے والے بھی استعمال کرتے ہیں۔ کچھ لوگ اس کے پروں اور ناخن کو تعویز بناکر پہنتے ہیں جب کہ آیوروید طریقہ علاج میں اس سے بعض دوائیں بھی تیار کی جاتی ہیں۔

لیکن دیوالی کے دوران الو کی مانگ بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے کیوں کہ لوگ سال بھر تک اپنی خوش قسمتی کے لیے اسے لکشمی دیوی پر قربان کرنا چاہتے ہیں۔ گریوال کا کہنا ہے کہ الو کے چھوٹے بچے بھی دو ہزار سے چالیس ہزار روپے میں فروخت ہوتے ہیں جبکہ بعض اوقات ان کی قیمت لاکھوں میں چلی جاتی ہے۔


گریوال کے مطابق سن تہتر کے وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ کے تحت الووں کا شمار محفوظ اورنایاب پرندوں میں ہوتا ہے۔ الووں کی بعض قسمیں انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر(آئی یو سی این) کی ریڈ لسٹ میں بھی شامل ہیں۔ ان کے شکار یا اسمگلنگ پر تین سال یا اس سے زیادہ قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود غیر قانونی طور پر ان کا شکار اور اسمگلنگ جاری ہے۔ اس غیرقانونی تجارت کے دوران الو کی آنکھوں کی سلائی کر دی جاتی ہے اور ہڈیاں توڑ دی جاتی ہیں۔

یہاں وائلڈ لائف کرائم کنٹرول بیورو کے نام سے ایک ادارہ قائم ہے، جس کی ذمہ داری ہے کہ الووں کے شکار اور اسمگلنگ کو روکے لیکن بکرم گریوال کے بقول یہ ادارہ اپنے کام میں ناکام نظر آتا ہے۔ اترپردیش کے چمبل برڈ سینکچوری علاقے میں پائے جانے والے مخصوص نسل کے الو کی بین الاقوامی مارکیٹ میں کافی مانگ ہے۔ وہاں سے الووں کو اسمگل کرکے دہلی، اور پھر ممبئی سے جاپان، عرب اور یورپی ملکوں تک لے جایا جاتا ہے۔


ماہرین کے مطابق دنیا میں الووں کی تقریباً سوا دو سو قسمیں پائی جاتی ہیں جبکہ یہاں تیس طرح کے الو ملتے ہیں۔ بعض ملکوں میں الو کو منحوس سمجھا جاتا ہے لیکن مغرب میں اسے دانش مندی کی علامت کے طور پہ دیکھا جاتا ہے۔ یونانی روایت میں الو کا تعلق آرٹ اور ہنر کی دیوی ایتھینا سے جوڑا جاتا ہے جب کہ جاپان میں اسے دیوتاؤں کا پیامبر سمجھا جاتا ہے۔ لکشمی کی مورتی الو کے بغیر نامکمل سمجھی جاتی ہے۔

جادو ٹونا کرنے والے بھی الو کو کافی اہمیت دیتے ہیں اور دعوی کرتے ہیں کہ اس کے اندر خاص طاقت ہوتی ہے جس سے بہت سی بیماریاں ٹھیک ہوجاتی ہیں اور بری روحیں بھاگ جاتی ہیں۔ قبائلی علاقوں میں کالا جادو کرنے والے بھوت پریت بھگانے کے لیے الو کا استعمال کیا جاتا ہے۔


ماہرین کا کہنا ہے کہ لوگوں کو الووں کی اہمیت کے حوالے سے بیدا ر کرنے کی ضرورت ہے کہ الو ایک ماحول دوست پرندہ ہے۔ یہ چھوٹے کیڑے مکوڑوں کو کھاکر بہت سے پھلوں اور فصلوں کو بچاتا ہے۔ اس لیے اس کی ماحولیاتی اور سماجی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 27 Oct 2019, 9:11 PM