فرخ آباد: پولیس کی مبینہ پٹائی سے دلت نوجوان کی موت، لواحقین انتظامیہ سے سخت نالاں، لیڈران بھی بے پروا

اتر پردیش کے فرخ آباد میں مبینہ طور پر پولیس کی پٹائی سے ایک دلت نوجوان کی موت کے معاملے میں خاندان میں مایوسی پھیل رہی ہے اور اہل خانہ خود کو بے بس محسوس کر رہے ہیں

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف
user

آس محمد کیف

اتر پردیش کے فرخ آباد میں مبینہ طور پر پولیس کی پٹائی سے ایک دلت نوجوان کی موت کے معاملے میں خاندان میں مایوسی پھیل رہی ہے اور اہل خانہ خود کو بے بس محسوس کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کے رہنماؤں نے بھی ان سے ملاقات نہیں کی، ان کا خیال نہیں رکھا اور انہیں مشکل میں تنہا چھوڑ دیا۔ قائم گنج کے سماج وادی پارٹی کے لیڈر اور سابق وزیر سرویش امبیڈکر نے اسے سنگین ناانصافی قرار دیا ہے۔ سرویش امبیڈکر کا کہنا ہے کہ پولیس کی پٹائی سے ایک دلت نوجوان کی موت کے بعد اسے گھر میں نظر بند کر دیا گیا اور وہ اپنے گھر والوں سے ملنے نہیں جا سکا۔ مہلوک کی موت کے بعد پولیس نے پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا تھا لیکن تاحال لواحقین کو کوئی معاوضہ نہیں دیا گیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ معاملے کو فع دفع کی کوشش کی جا رہی ہے۔

فرخ آباد کے قائم گنج اسمبلی حلقہ میں 24 جون کی رات کو پیش آیا۔ متوفی 35 سالہ گوتم کے رشتہ داروں کا الزام ہے کہ اس رات میراپور چوکی کے انچارج سمیت کئی پولس اہلکار ان کے گھر آئے اور گوتم کو زبردستی اپنے ساتھ لے گئے، پھر اسے ایک کھیت میں لے گئے اور اس کی بے رحمی سے پٹائی کی۔ اہل خانہ نے پولیس پر آخری رسومات بھی زبردستی ادا کرانے کا بھی الزام عائد کیا تھا۔ متوفی گوتم کی بیوی کی تحریر پر میراپور تھانہ انچارج جگدیش ورما، اچرا چوکی کے انچارج وشوناتھ آریہ، کانسٹیبل نکھل، سچن اور چھ نامعلوم پولیس اہلکاروں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔


فرخ آباد کے میراپور تھانہ علاقے کے برہما پوری گاؤں کی رہنے والی منجو دیوی کی طرف سے درج کرائی گئی ایف آئی آر کے مطابق 24 جون کی رات تقریباً 12 بجے جب کسی نے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو اس کے شوہر گوتم دروازہ کھولا۔ جیسے ہی دروازہ کھلا، اسٹیشن انچارج، چوکی انچارج وشوناتھ آریہ اپنے سپاہیوں کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئے اور گوتم کو پکڑ کر مارنا شروع کر دیا۔ اسی وقت گوتم کی ماں لونگ شری اور بھائی بوبی بیدار ہوئے اور گوتم کی رہائی کی التجا کرنے لگے لیکن پولیس نے گوتم کو مارنا پیٹنا شروع کر دیا اور اسے گاؤں کے باہر لے گئی، گوتم کی بیوی منجو دیوی اور اس کی ماں اور بھائی پولیس کے پیچھے گئے اور کئی بار گوتم کو چھوڑنے کی درخواست کی۔ اس کے باوجود پولیس والے گوتم کو پکڑ کر گاؤں کے کنارے مندر کے سامنے کھیت میں لے گئے۔ وہیں گوتم کو پیٹ پیٹ کر مار دیا گیا، پولیس والوں نے گوتم کو مرنے تک نہیں چھوڑا۔

متوفی گوتم کی بیوی منجو دیوی نے میراپور کے تھانہ انچارج جگدیش ورما، اچرا چوکی کے انچارج وشوناتھ آریہ، کانسٹیبل نکھل، سچن اور چھ نامعلوم پولیس والوں کے خلاف شکایت درج کرائی ہے۔ لواحقین نے مطالبہ کیا کہ جب تک ملزمان کے خلاف مقدمہ درج نہیں کیا جاتا، لاش کا پوسٹ مارٹم نہیں کرائیں گے۔ وہیں، قائم گنج کے سی او سہراب عالم کا کہنا ہے کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں گوتم کی موت کی وجہ پٹائی نہیں بتائی گئی ہے اور وسرا رپورٹ سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے۔ پولیس غیر قانونی شراب بنانے کی شکایت پر گاؤں پہنچی تھی۔ معاملے کی جانچ کی جا رہی ہے اور تفتیش میں قصوروار پائے جانے کے بعد ہی پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔


ہفتے کی شام فرخ آباد پولیس نے 4 نامزد افراد سمیت 10 پولیس اہلکاروں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا جس کے بعد لاش کا پوسٹ مارٹم کیا گیا۔ وہیں پوسٹ مارٹم کے بعد متوفی گوتم کے رشتہ داروں نے اگلے دن اتوار کو آخری رسومات ادا کرنے کا کہا تھا لیکن متوفی کے بھائی اودل نے پولیس پر زبردستی آخری رسومات ادا کرنے کا الزام لگایا ہے۔ اودل کے مطابق ہندو دھرم کے مطابق رات کو آخری رسومات ادا نہیں کی جاتیں، اس لئے آخری رسومات ادا کرنے سے منع کیا گیا تھا لیکن پولیس نہیں مانی اور رات کو ہی دباؤ بنا کر آخری رسومات ادا کرا دی گئیں۔ اودل کا کہنا ہے کہ انہیں اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے اور لیڈر بھی ان کی خبرگیری نہیں کر رہے ہیں۔

سابق وزیر سرویش امبیڈکر کا کہنا ہے کہ ایسا اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ پولیس انتظامیہ کارروائی کرنے کے بجائے کیس کو دبانے میں زیادہ دلچسپی دکھا رہی ہے۔ پولیس کو بتانا چاہیے کہ وہ بغیر وارنٹ کے گاؤں میں چھاپہ مارنے کیوں گئی تھی۔ پولیس اہلکاروں کو یہ بتانا چاہئے کہ انہیں غیر قانونی شراب تیار کرنے کی اطلاع کس طرح موصول ہوئی! جس انداز میں واقعے کو دبانے کی کوشش کی گئی اس سے شک پیدا ہوتا ہے۔ یہ خاندان انتہائی غریب ہے، آج تک ان کی کسی قسم کی مدد نہیں کی گئی۔ میں ان سے ملنے جانا چاہتا تھا لیکن مجھے نظر بند کر دیا گیا۔


زبردستی آخری رسومات کرانے کے الزام پر پولیس کا کہنا ہے کہ آخری رسومات اہل خانہ نے خود ادا کی ہیں، سی او قائم گنج سہراب عالم کا کہنا ہے کہ پولیس پر زبردستی آخری رسومات کرانے کے الزام میں کوئی صداقت نہیں۔ متوفی گوتم کے جسم پر خراشیں اور چوٹوں کے نشانات پائے گئے ہیں لیکن پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق ان کے سبب موت ہونے کی تصدیق نہیں ہوتی۔ پولیس کے مطابق گوتم کی موت کی وجہ ابھی تک واضح نہیں ہو سکی ہے اس لیے وسرا کو محفوظ رکھا گیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔