کسانوں کی بے بسی کا مذاق اڑاتی بی جے پی حکومتیں 

راجستھان اور چھتیس گڑھ میں جہاں کسان اپنے مطالبات منوانے کے لئےسڑکوں پر اترنے کو مجبور ہو گئے ہیں اور اتر پردیش میں حکومت نے کسانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کیا ہے۔

قرض معافی کے لیے مظاہرہ کرتے ہوئے کسان (تصویر سوشل میڈیا)
قرض معافی کے لیے مظاہرہ کرتے ہوئے کسان (تصویر سوشل میڈیا)
user

قومی آواز بیورو

سیکر: راجستھان میں قرض معافی کے مطالبات کو لے کر کسان سڑکوں پر اتر کر احتجاج کر رہے ہیں۔ سیکر سمیت کئی ضلع ہیڈکوارٹرس پر کسان ڈیرہ جمائے ہوئے ہیں ۔ ادھر چھتیس گڑھ میں بھی کسانوں کا احتجاج جا ری ہے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے ان کے ساتھ وعدہ خلافی کی ہے۔ اتر پردیش حکومت بھی پیچھے نہیں ہے کیونکہ وہاں حکومت کسانوں کے زخموں پر نمک چھڑ کنے کا کام کر رہی ہے ۔ قرض معافی کے بڑے بڑے دعوے کرنے والی یو گی حکومت نے متعدد اضلاع میں جوکسانوں کے قرض معافی کے سرٹیفکیٹ جاری کئے ہیں اس میں متعدد کسانوں کو چند روپے دیکر ان کا مزاق اڑایا گیا ہے۔ یوگی حکومت کی سنگ دلی کی انتہااس بات سے واضح ہو تی ہے کہ ہمیر پور کے ایک کسان کو حکومت نے 10 روپے 37 پیسے کا قرض معاف کیا ہے،بجنور کے ایک کسان کے تو محض 9 پیسوں کو قرض معاف کیا گیا ہے۔

راجستھان میں کمیونسٹ پارٹی کے سابق رکن اسمبلی امرا رام نے کسانوں کے حق کے لئے احتجاج کی شروعات کی تھی جودیکھتے ہی دیکھتے ایک بڑی مہم کی شکل اختیارکر چکی ہے۔گزشتہ ڈیڑھ مہینے سے یہ مہم جاری ہے لیکن ریاستی حکومت تماش بین بنی ہوئی ہے۔ جب مطالبات پورے ہوتے دکھائی نہیں دئیے تو تھک ہار کر کسانوں نے چکہ جام کرنے کا فیصلہ کیا، چکہ جام کا آج دوسرا دن ہے۔ گزشتہ روز 450 مقامات پر کسانوں نے چکہ جام کیا جس کی وجہ سے 3500گاڑیاں اور 16 ہزار لوگ اس چکہ جام میں پھنس گئے تھے۔ سیکر کے علاوہ کسانوں کا احتجاج کا دوسرا مرکز بیکانیر ہے۔ اس کے علاوہ جھن جھنو، ناگور، ہنو مان گڑھ، شری گنگا نگر، الور، جے پور، ڈونگر پور، ادے پور اور دیگر اضلاع میں بھی کسان احتجاج کر رہے ہیں۔

حکومت نے کسانوں سےبات چیت کر نے کے لئے 18 گھنٹوں سے بھی زیادہ وقت لگا دیا۔ انتظامیہ نے کسانوں کو سمجھانے بجھانے کی بہت کوشش کی لیکن بات نہ بن سکی۔دراصل حکومت کسانوں سے بات چیت کرنا ہی نہیں چاہتی تھی ،لیکن جب بڑے پیمانے پر مہم کا اثر دکھائی د ینے لگا تو انتظامیہ کے ہاتھ پیر پھولنےلگے جس سےمجبور ہو کر کسانوں کو بات چیت کے لئے مدعو کر نا پڑا۔کسان رہنما امرا رام کا کہنا ہے کہ حکومت بات چیت کے نام پر صرف ڈرامہ کر رہی ہے جس کی وجہ سے ریاست بھر میں عوام کو پریشانی ہو رہی ہے۔ یہ پوچھے جانے پر کہ مظاہرین سے عوام کو پریشانی ہوتی ہے تو امرا رام نے کہا،’’ایک دن اگر لوگوں کا راستہ رک گیا تو آپ کو پریشانی محسوس ہو رہی ہے اور جو لاکھوں کسانوں نے خود کشی کر لی کیا وہ ان کی پریشانی نہیں ہے؟ ‘‘ امرا رام کا مزید کہنا ہے کہ ’’حکومت تو یہی چاہتی ہے کہ کوئی احتجاج نہ ہو، انگریزی دور میں انگریز بھی یہی چاہتے تھے کہ احتجاج نہ ہو۔‘‘ کسان مہم کو کئی کسان تنظیموں نے حمایت دی ہے۔کروڑی مل مینا اور ہنومان بینی وال بھی اس مہم کو حمایت دینے کی تیاری کر رہے ہیں۔

کسان سبھا نے کلکٹریٹ کا گھیراؤ کرنے اور کچے پکے روڈوں کو جام کرنے کے لئے 361 چوکیاں بنائی ہیں۔ موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے انتظامیہ کی طرف سے دیر رات سے انٹرنیٹ خدمات کو معطل کر دیا گیا۔ احتجاج کا اثر جھن جھنو میں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ یہاں جب کسانوں کوکلکٹریٹ میں گھسنے سے روکا گیا تو احتجا جیوں نے کلکٹریٹ کےسامنے ہی اپنا پڑاؤ ڈال لیا۔ چرو میں بھی کسانوں نے ٹرین روکی اور کلکٹریٹ کے گیٹ پر راستہ روک کر نعرے بازی کی ۔

کسان سبھا کے ریاستی صدر پیما رام کا کہنا ہے کہ اگر ان کے مطالبات پر غور نہ کیا گیا تو ہزاروں کسان ضلع کلکٹریٹ پر غیر معینہ بھوک ہڑتال پر بیٹھ جائیں گے۔ کسان سبھا کے جوائنٹ سکریٹری سنجے مادھو نےمطالبات کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا ،’’ ہماری مانگ ہے کہ مکمل طور پر قرض معاف کیا جائےاور سوامی ناتھن کی سفارشات جن میں کسانوں کو فصلوں کے واجب دام دئیے جانے، بڑھے ہوئے خرچ پر سبسڈی دئیے جانے اور دیگر سہولیات کے بارے میں جوکہا ہے، ان کو نافذ کیا جائے۔ بی جے پی اور نریندر مودی نے انتخابات کے وقت جو وعدے کئے تھے انہیں اب وہ پورے کرے ۔‘‘

احتجاج کو ایک طرف جہاں تاجروں کی حمایت حاصل ہو رہی ہے وہیں اس میں تقریباً 300 ڈی جے بینڈ بھی شامل ہوئے ہیں۔ کافی وقت سے راجستھا ن میں کسانوں کی لگاتار خودکشی کی خبر یں سامنے آ رہی ہیں لیکن برسراقتدار حکومت میں اس حوالے سے کوئی ہلچل دکھائی نہیں دے رہی ہے۔

احتجاج کر رہے کسانوں کا ’’کہنا ہے کہ کسان کھیتوں میں محنت کر کے دنیا کا پیٹ بھرتا ہے لیکن حکومت کی پالیسیوں سے کھیتی اب خسارے کا سودابنتی جارہی ہے اور اس کی اہم وجہ یہی ہے کہ کسانوں کو ان کی فصلوں کے واجب دام نہیں مل پا رہے ہیں۔‘‘

کانگریس ترجمان آشما شرما کا کہنا ہے کہ ’’ہماری پارٹی نے ہمیشہ کسانوں کی سبھی مانگوں کی حمایت کی ہے۔اس حوالے سے جب کانگریس نے’آکروش ریلی ‘ کی تھی تو اس میں پارٹی کے نائب صدر راہل گاندھی خود شامل ہوئے تھے۔ آگے ہم ریاستی سطح پر احتجاج کی حکمت عملی تیار کر رہے ہیں تا کہ ہر ضلع میں مہم چلا کر کسانوں کو مطالبات کے مطابق ان کا حق دلوایا جاسکے۔‘‘

چھتیس گڑھ کی بات کریں تو یہاں کے کسانوں سے وعدہ کیا گیا تھا کہ دھان کی قیمت 2100 روپے فی کونٹل اور 300 روپے بونس دیا جائے گا لیکن کسانوں کو دام محض 1400 روپے فی کونٹل کے حساب سے ملے، اب جب کہ اگلے سال انتخاب ہیں تو حکومت نےصرف 300 روپے بونس دینے کا اعلان کیا ہے جو کسانوں کو منظور نہیں ہے۔ کسان اس وقت سڑکوں پر اترے ہوئے ہیں اور اپنے مطالبات کو لے کر نعرے بلند کر رہے ہیں۔

۔
۔

اتر پردیش میں یوگی حکومت نے کسانوں کا ایک لاکھ روپے تک کا قرض معاف کرنے کا وعدہ کیا تھا اور ’’کرشی رن موچن یوجنا‘‘ نامی کسان قرضہ معافی اسکیم بنائی تھی۔ لیکن اس کے لئے اس طرح کے معیار رکھے گئے ہیں جس کے مطابق شاید ہی کسی کسان کا قرضہ معاف کیا گیا ہو۔ ہمیر پور کے عمری گاؤں کی ایک کسان شانتی دیوی کو محض 10.37 روپے کی قرض معافی کی گئی ہےجبکہ اس کا قرض 1.55 لاکھ روپےکا تھا۔ اسی طرح موداہا گاؤں کے منی لال کے 40 ہزار کے قرض میں سے محض 215 روپے کو ہی معاف کیا گیا ہے۔ سینکڑوں کسانوں کے ساتھ ایسا ہی مذاق کیا گیا ہے۔ وہیں بجنور ضلع میں تو حکومت نے حد ہی کر دی یہاں کسی کسان کا 9 پیسے تو کسی کا 95 پیسے قرض معاف کیا گیا ہے۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 12 Sep 2017, 9:48 PM