مودی حکومت کی وعدہ خلافی سے تنگ کسان، اب جنگ پر آمادہ

حیرت انگیز طور پر فصل بیمہ کا یہ ذمہ سرکاری زمرہ کی بیمہ کمپنیوں کو نہیں بلکہ نجی زمرہ کی کمپنیوں کو دیا گیا ہے جس سے اس کھیل میں کس کس کو فائدہ مل رہا ہے آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

عبیداللہ ناصر

مودی حکومت کی مسلسل وعدہ خلافیوں اور کسان دشمن پالیسی کے خلاف ملک کے مختلف حصوں میں کسان حکومت کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے پھر بھی حکومت وقت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی، تو مجبوراً انہیں د لّی مارچ کرنا پڑا، پھر بھی تادم تحریر ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا ہے کی حکومت کسانوں کے مسائل حل کرنے کے لئے کچھ قدم اٹھانے والی ہے، اس کے برخلاف سوشل میڈیا پر مودی حکومت حامی جس طرح ان کسانوں کا مذاق اڑا ر ہے ہیں اس سے کسانوں کے تئیں مودی حکومت کی سوچ کا پتا چلاتا ہے دوسری جانب کسانوں کی اس تحریک سے نہ صرف کسانوں کے مسائل عیاں ہوئے ہیں بلکہ انتخابات کے اس ماحول میں اپوزیشن کے اتحاد کا پیش خیمہ بھی بنتا دکھائی دے رہا ہے، کیونکہ بی جے پی اور اس کے حلیفوں کو چھوڑ کر اپوزیشن کے تمام اہم لیڈران ان کسانوں سے ہمدردی دکھانے کے لئے جنتر منتر پہنچے۔

ویسے کسانوں کے مطالبات نہ تو نئے ہیں اور نہ ہی نا قابل قبول، بس ان کو پورا کرنے کے لئے حکومت کے پاس قوت ارادی کی کمی ہے ورنہ کسان صرف یہی تو مانگ کر رہے ہیں کہ مودی حکومت اپنے وعدہ کے مطابق سوامناتھن کمیٹی کی سفارشات کے مطابق ان کی پیداوار کی قیمت دے اور انھیں قرض سے نجات دلاے۔

کسانوں کو یاد ہے کی سابقہ منموہن حکومت نے ان کے 76 ہزار کروڑ کے قرض معاف کردیئے تھے اور 2013 میں انھیں اب تک کی سب سے زیادہ گیہوں کی سہارا قیمت دی تھی، کسانوں کا کہنا ہے کہ جب منموہن سنگھ کی حکومت یہ کر سکتی ہے تو مودی حکومت کیوں نہیں، خاص کر جب بڑے بڑے دھنا سیٹھوں کا کھربوں روپیہ کا قرض بٹے کھاتے میں ڈالا جا چکا ہے اور اس سے بھی بڑی رقم چند بڑے تاجر لے کر ملک سے فرار ہو چکے ہیں۔

دنیا جانتی ہے کہ ہندوستان میں زرعی زمرہ سخت بحران میں مبتلا ہے یہ بحران نیا تو نہیں ہے لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ 2014 میں نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت بننے کے بعد سے یہ بحران زیادہ شدید ہو گیا ہے کیونکہ اس حکومت کی پالیسیاں کسانوں سے زیادہ صنعت کاروں اور بڑے تاجروں کے مفاد میں رہی ہیں جس کی سب سے ظالمانہ مثال فصل بیمہ اسکیم ہے۔

ممتاز ماہر معاشیات پی سائی ناتھ نے اسے رافیل جنگی جہاز سودے سے بھی بڑا گھپلا بتایا ہے جس کا سیدھا فائدہ پرائیویٹ زمرہ کی بیمہ کمپنیوں کو مل رہا ہے- اطلاعات کے مطابق کسان کو 40 ہزار کا بیمہ کرانے کے لئے اپنے پاس سے 800 روپیہ دینا ہوتا وہیں 3200 روپیہ مرکزی حکومت اور 3200 روپیہ ریاستی حکومت کو دینا ہوتا ہے اس طرح بیمہ کمپنی کو کل 7200 روپیہ ملتا ہے، زیادہ تر کسان دعوے وغیرہ کے جھنجھٹ میں نہیں پڑتے ہیں اور جو دعوے کرتے بھی ہیں انھیں چار پانچ سو روپیہ دے کر ٹرخا دیا جاتا ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق اس گھپلے میں اب تک کئی ارب روپیہ بیمہ کمپنیاں کما چکی ہیں۔

حیرت انگیز طور پر فصل بیمہ کا یہ ذمہ سرکاری زمرہ کی بیمہ کمپنیوں کو نہیں بلکہ نجی زمرہ کی کمپنیوں کو دیا گیا ہے جس سے اس کھیل میں کس کس کو فائدہ مل رہا ہے آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ بیمہ کمپنیوں کی یہ لوٹ تو محض ایک بانگی ہے کسان ہر طرف سے لوٹا جا رہا ہے، یوریا کھاد کے دام کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں جبکہ پچاس کلو کی جگہ اب بوری میں صرف 45 کلو کھاد ہی بھری جاتی ہے بہت سے کسان بوری کے اصل وزن سے واقف ہوں گے۔ کھاد اور بیج کے ساتھ ہی ساتھ ڈیزل کی آسمان چھوتی قیمتوں سے بھی کسان ہلکان ہے جن کے اپنے ٹریکٹر اور ٹیوب ویل ہیں وہ تو ڈیزل کی قیمت سے پریشان ہیں ہی ان سے کہیں زیادہ وہ کسان پریشان ہیں جو ٹریکٹر کرایہ پر بلا کر اپنے کھیتوں کی بوئی کرواتے ہیں اور دوسرے کے ٹیوب ویل سے فی گھنٹہ کے حساب سے پانی لیتے ہیں ایسے کسانوں پر دوہری مار پڑتی ہے۔

کسانوں کے مسائل گوناگوں ہیں جنھیں کسی فارمولا کے تحت حل نہیں کیا جا سکتا مثلاً فصل خراب ہونے یا آفات ارضی و سماوی سے ہوئے نقصان کو تو بیمہ کمپنیاں اگر پورا بھی کر دیں تو بہت اچھی فصل ہو جانے پر انھیں بازار سے جو مناسب قیمت نہیں ملتی اس کا کیا حل ہو سکتا، اکثر کسانوں نے ٹماٹر یا پیاز سڑک پر پھینک دیا ہے اس طرح کی خبریں آتی ہی رہتی ہیں، اس کی وجہ فصل کی اچھی پیداوار ہے، پہلے کسان کم پیداوار کی وجہ سے پریشان ہوتا تھا اب زیادہ پیداوار ہونا ان کے لئے مصیبت بن جاتی ہے۔

مودی حکومت کی کسان دشمن پالیسیاں سونے پر سہاگے کا کام کرتی ہیں، اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ گنا کسانوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ زیادہ گنا نہ بوئیں کیونکہ اس سے شوگر ہو جاتی ہے لیکن پاکستان سے چینی منگوا لی جاتی ہے۔

گزشتہ سال دالوں کی قیمتیں آسمان چھو رہی تھیں ہندوستانی کسانوں نے بڑے پیمانہ پر ارہر، ماش، مونگ اور دوسری دالیں بو دیں، پیداوار بھی کافی اچھی ہوئی، لیکن جب دالوں کے بازار پہنچنے کا وقت آیا تو دالیں دوسرے ممالک سے ایمپورٹ کر لی گئیں، اس سے پہلے کہ کسانوں کی دالیں بازار میں پہنچتیں اس سے پہلے دیگر ممالک سے ایمپورٹ ہوئی دالیں بازار میں پہنچ گئیں، نتیجہ کسانوں کی دالیں اس کے گھر میں ہی رکھے رکھے برباد ہو گئیں یا پھر ان دالوں کو اونے پونے میں بیچنا پڑا، یہی حالت زیادہ تر نقد فصلوں کی ہوتی ہے۔ فصل کے فائدہ بخش ہونے کے ساتھ ساتھ سہارا قیمت کے ساتھ اس کی خریداری کو یقینی بنانا بھی ای اہم مسئلہ ہے، جب تک خریداری کا مناسب بندوبست نہ ہو سہارا قیمتوں کا تعین بے معنی ہو جاتا ہے۔ مودی حکومت کو کسانوں کے ان مطالبات کو ہمدردی اور ترجیحی بنیاد پر حل کرنا چاہیے لیکن فی الحال مودی حکومت کا کسانوں کے تئیں رویہ تو معاندانہ ہی دکھایی دیتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 02 Dec 2018, 5:09 PM