فڈنویس کو نائب وزیر اعلیٰ کا عہدہ قبول کرنا پڑا، اصل زلزلہ یہ ہے، شیو سینا کا سامنا کے ذریعے طنز

شیو سینا نے ’سامنا‘ میں لکھا، ایکناتھ شندے کی بغاوت کو مہاراشٹر کی سیاست میں زلزلہ قرار دیا گیا لیکن اصل زلزلہ یہ ہے کہ ایکناتھ شندے وزیر اعلیٰ بنے اور فڈنویس کو نائب وزیر اعلیٰ کا عہدہ قبول کرنا پڑا

مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ اور نائب وزیر اعلیٰ کی حلف برداری تقریب / یو این آئی
مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ اور نائب وزیر اعلیٰ کی حلف برداری تقریب / یو این آئی
user

قومی آوازبیورو

ممبئی: شیو سینا نے اپنے ترجمان سامنا کے ذریعے ایک مرتبہ پھر بی جے پی اور دیوندر فڈنویس پر حملہ بولا ہے۔ سامنا کے اداریہ میں لکھا گیا ہے کہ ایکناتھ شندے نے وزیر اعلیٰ کا عہدہ پایا، دیویندر فڈنویس کی زندگی میں زلزلہ آیا، ادھو ٹھاکرے نے یہی کمایا۔ ایکناتھ شندے وزیر اعلیٰ بنے اور دیویندر فڈنویس کو ان کی وزارتی کونسل میں نائب وزیر اعلیٰ کا عہدہ قبول کرنا پڑا، یہی اصل زلزلہ ہے۔ فڈنویس پھر سے اقتدار میں آئے لیکن وہ اس طرح سے آدھے ہی آئیں گے اس کا کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا۔ اب ریاست میں کیا ہوگا!

سامنا میں کہا گیا کہ ادھو ٹھاکرنے نے وزیر اعلیٰ عہدے سے استعفی دے دیا اور اس وجہ سے مہاراشٹر میں ایک دور ختم ہو گیا۔ یہ دورانیہ مجموعی طور پر ڈھائی سالوں کا ہیی تھا لیکن مستعفی ہو کر ادھو ٹھاکرے نے خود کو آزاد کر لیا۔ مہاوکاس اگھاڑی کی حکومت 5 سال کے لئے قائم ہوئی تھی لیکن ڈھائی سالوں میں گر گئی اور ایسا کانگریس یا این سی پی کی وجہ سے نہیں ہوا۔ ادھو ٹھاکرے نے استعفی پیش کرتے ہوئے کہا کہ میرے ہی لوگوں نے دھوکہ دیا۔


ایکناتھ شندے کے ساتھ کتنے ارکان اسمبلی ہیں اس کو تو چھوڑیں لیکن ادھو ٹھاکرے کی قیادت میں یہ تمام ارکان اسمبلی شیوسینا کے امیدوار کے طور پر جیتے اور انہوں نے ادھو ٹھاکرے کے خلاف بغاوت کی۔ دل بدل قانون کے تحت ان کا قانون ساز کا عہدہ ختم ہو سکتا ہے لیکن مہاراشٹر کے گورنر اور سپریم کورٹ نے منحرف ہونے والوں کو طاقت دی۔ اگر کسی نے پارٹی بدلنی ہے تو اسے عوام کی نظروں کے سامنے بدلنا چاہیے۔ اس میں عوام کو منہ دکھانے کا حوصلہ ہونا چاہیے۔ انحراف کی وجہ سے نااہل ہونے کے خوف سے ممبران اسمبلی نے مہاراشٹر کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کیا اور گورنر نے آئین سے ماورا کاموں کے 'پیڑے' کھا لیے!

دیپک کیسرکر شندے دھڑے کے ترجمان ہیں۔ اچانک ہندوتوا اور بی جے پی میں وابستگی پیدا ہو گئی یہ سمجھنے کی بات ہے لیکن ساونت واڑی حلقے میں جہاں کیسرکر 2019 میں منتخب ہوئے تھے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کے باوجود راجن تیلی نامی ایک باغی کو بی جے پی نے کیسرکر کے خلاف کھڑا کیا اور گوا کے وزیر اعلیٰ پرمود ساونت خود ان کے لیے انتخابی مہم چلانے آئے۔ الیکشن میں شیو سینا کے 30 امیدواروں کو بی جے پی کے حمایت یافتہ باغیوں کی وجہ سے شکست ہوئی۔ یہ کھیل شیوسینا کے اراکین اسمبلی کی تعداد کو کم کرنے اور وزیر اعلیٰ کے عہدے پر شیوسینا کے دعوے کو کمزور کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ آج بی جے پی نے تقریباً 17 ارکان اسمبلی کو براہ راست گرانے کی کوشش کی جو شنڈے دھڑے میں شامل ہوئے، یہ سچ ہے۔ دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ 40 ارکان اسمبلی یقینی طور پر کس وجہ سے پارٹی چھوڑ گئے؟ وہ اور ان کے ترجمان نے مسلسل مختلف وجوہات بیان کیں۔


مہاراشٹر میں زلزلہ آیا اور سیاست میں ایسا زلزلہ کبھی نہیں آیا تھا، ایسا ایکناتھ شندے کی بغاوت کے بارے میں کہا گیا تھا۔ پورا میڈیا شندے کی بغاوت کے بعد دیویندر فڈنویس کو چانکیہ کے لقب سے نواز رہا تھا لیکن حقیقت کچھ اور تھی۔ یہ بغاوت کو براہ راست دہلی کے ذرائع نے انجام دی اور مہاراشٹر کی بی جے پی اس کے بارے میں پوری طرح سے اندھیرے میں تھی۔ ایکناتھ شندے نائب وزیر اعلیٰ بنیں گے اور دیویندر فڈنویس وزیر اعلیٰ بنیں گے، ایسا وہ کہہ رہے تھے جو بعد میں غلط ثابت ہوا۔ یہ فڈنویس کے لیے ایک جھٹکا ہے۔ امت شاہ کے ساتھ فڈنویس کے تعلقات اچھے نہیں ہیں۔ مہاراشٹر کی سیاست میں اب کوئی آئیڈیل نہیں ہے۔ اس کی کھچڑی بن گئی ہے اور ایک نئی حکمرانی آئی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔