اتر پردیش: درندگی چھوڑ رہی نشاں کیسے کیسے...

وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے اتر پردیش کو ’رام راجیہ‘ بنا دیا ہے لیکن نابالغ لڑکیوں کے ساتھ ہر روز ہو رہی آبروریزی کی واردات ان کے اس رام راجیہ کی قلعی کھول رہی ہیں

تصویر آس محمد
تصویر آس محمد
user

آس محمد کیف

لکھنؤ: یوپی کے ضلع مظفرنگر کے قصبہ جانسٹھ کے رہائشی ماجد اور جمیلہ (تبدیل شدہ نام) ان بدنصیب والدین میں سے ہیں جن کی پھول سی بچی کو درندگی کا شکار بنا دیا گیا۔ جانسٹھ کے جنت آباد علاقہ میں ان کی 6 سالہ بچی رفیقہ (تبدیل شدہ نام) کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ بچی کی آبریرزی کے وقت ملزم نے اس کا منہ بند کر دیا تھا اور دم گھٹنے کی وجہ سے اس کی موت واقع ہو گئی۔ پولیس نے اس معمالہ میں دو ملزمان کو گرفتار کر لیا۔ ملزمان نے بچی کی لاش کو ایک زیر تعمیر مکان کے بیت الخلا کے لئے تیر کئے گئے گڑھے میں پھینک دیا تھا۔

بچی کے والد ماجد نے بتایا کہ ان کی بیوی جمیلہ زار و قطار روتی رہتی ہیں اور راتوں کو سو نہیں پاتی جس سے اس کی آنکھیں سوج گئی ہیں۔ ماجد اور جمیلہ کے دو بیٹے ہیں لیکن بیٹی ایک ہی تھی۔ جمیلہ کہتی ہیں کہ رفیقہ کو اب اسکول بھیجنا تھا لیکن وہ تو سیدھا جنت میں ہی چلی تھی۔ جمیلہ نے کہا، ’’میری ہی غلطی ہے۔ میں نماز پڑھ رہی تھی۔ وہ دروازہ کھول کر باہر چلی گئی۔ نماز ختم ہونے کے بعد میں باہر دیکھنے کے لئے گئی تو پڑوسن نے بتایا کہ ابھی یہیں کھیل رہی تھی۔ وہ پانچ منٹ میں وہاں سے غایب ہو گئی۔ ان پانچ منٹوں نے میرا سب کچھ چھین لیا۔ جمیلہ کا میکہ اور سسرال دونوں جانسٹھ میں ہی ہیں ور ماجد باورچی ہیں، جوکہ شادیوں میں کھانا تیار کرتے ہیں۔


ماجد کا کہنا ہے کہ وہ یہاں کرایہ پر رہتے تھے اور انہوں نے کچھ روز قبل ہی اپنا مکان خریدا ہے، مگر وہ اب یہاں نہیں رہیں گے۔ جن سے بقول ماجد، جب سے ان کی بیٹی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے گلی میں کوئی بچہ نظر نہیں آتا۔ لوگوں نے اپنے بچوں کو گھروں میں قید کر لیا ہے۔ انہون نے کہا، ’’شیطان کھلا گھوم رہا ہے، اللہ انہیں غارت کرے جنہوں نے میری پھول سہی بچی کو چھیل لیا۔‘‘

خیال رہے کہ گزشتہ ایک مہینے میں اتر پردیش میں معصوموں کے ساتھ زیادتی کے درجنوں واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ اگرچہ عدلتیں ان معاملوں میں تیزی سے فیصلے سنا رہی ہیں، تاہم مجرموں میں کوئی خوف نظر نہیں آ رہا۔ ماجد اور جمیلہ جیسی حالت یوپی کے نہ جانے کتنے کنبوں کی ہو چکی ہے۔


وزیر اعلیٰ اتر پردیش یوگی آدتیہ ناتھ دعوی کرتے ہیں کہ انہوں نے اتر پردیش کو ’رام راجیہ‘ بنا دیا ہے لیکن نابالغ لڑکیوں کے ساتھ ہر روز ہو رہی آبروریزی کی واردات ان کے اس رام راجیہ کی قلعی کھول رہی ہیں۔ بیشتر معاملوں میں درندوں نے بچیوں کو ثبوت مٹانے کی غرض سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ مظفرنگر کے علاوہ میرٹھ، دیوبند، ہاپوڑ، ایودھیا اور کانپور میں ایسی ہی وارداتیں رونما ہو چکی ہیں۔

ایودیا کے رودولی کوتوالی علاقہ میں ایک گاؤں میں چار سال کی بچی کا ریپ کیا گیا۔ اس سے پہلے 2 اپریل کو میرٹھ کے سردھنہ میں 10 ویں جماعت کی لڑکی کی اجتماعی آبروریزی کی گئی۔ اسی دن سہارنپور کے دیوبند میں 11 سال کی لڑکی کو آبروریزی کے بعد قتل کر دیا گیا۔ 29 مارچ کو ہاتھرس میں دلت نابالغ لڑکی کو اجتماعی آبروریزی کا شکار بنایا گیا۔ رامپور میں 26 مارچ کو دو سگے بھائیوں نے مبینہ طور پر گھر میں گھس کر ایک 15 سالہ لڑکی کو اپنی ہوس کا شکار بنایا۔ ہاپوڑ میں 22 مارچ کو 10 ویں جماعت کی لڑکی کو آبروریزی کے بعد قتل کیا گیا۔ اسی طرح 11 مارچ کو مراد آباد میں ایک ٹیمپو ڈرائیور نے نابالغ لڑکی کو مبینہ طور پر اغوا کر کے اسے قتل کر دیا۔

کانپور میں 10 مارچ کو اسی طرح کے واقعہ میں 13 سال کی لڑکی کا ریپ کیا گیا، جبکہ 4 مارچ کو گورکھپور میں بھی ایک نابالغ لڑکی اجتماعی آبروریزی کا شکار بنی۔


نابالغ لڑکیوں کی آبروریزی کے یہ واقعات یوپی حکومت کے نظام قانون اور خاتون سلامتی کی پول کھول کر رکھ دیتے ہیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کی 2020 کی رپورٹ کے مطابق خواتین کے خلاف جرائم کے معاملہ میں اتر پردیش سر فہرست ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق سال 2018 میں اتر پردیش میں خواتین کے خلاف ظلم و ستم کے 60 ہزار سے زیادہ معاملے درج ہیں۔ اسی رپورٹ کے مطابق اتر پردیش میں صرف ریپ کے 4300 کیسز درج کئے گئے، جبکہ سبھی جانتے ہیں کہ ایسے بہت سے ریپ کے معاملے ہوتے ہیں جن کی تھانوں میں شکایت درج ہی نہیں کی جاتی۔

اتر پردیش کی کانگریس کی لیڈر اور رکن اسمبلی ارادھنا مشرا مونا کہتی ہیں کہ بیٹیوں کے ساتھ ہو رہا ظلم و ستم تشویش ناک ہے۔ افسوس ہے کہ اس طرح کے واقعات بڑھتے ہی جا رہے ہیں اور لگاتار رونما ہو رہے ہیں۔ اتر پردیش کی حکومت نے بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ کا نعرہ دیا تھا مگر وہ بیٹیوں کی حفاظت کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ حکومت اعداد و شمار میں ہیرپھیر کرنے اور ان واقعات کو جھوٹا ثابت کرنے میں اپنی طاقت کا استعمال کرتی ہے۔ ہاتھرس والا معاملہ اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ بچیوں کے ساتھ درندگی کرنے والے شیطان تو گہنگار ہیں ہی مگر ان لوگوں کو بھی جواب دینا ہوگا، جن پر ان کی حفاظت کی ذمہ داری ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔