دہلی سمیت کئی ریاستوں میں بجلی مہنگی ہونے کا امکان، قیمتوں میں اضافے کی سفارش شرائط کے ساتھ منظور
عدالت نے بجلی تقسیم کمپنیوں کے بقایاجات کی وصولی کے لیے قیمتیں بڑھانے کی سفارش منظور کر لی، تاہم اضافہ واجب، کِفایتی اور مقررہ حد کے اندر ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے

نئی دہلی: دہلی سمیت ملک کی کئی ریاستوں میں بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ عدالت کی جانب سے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے برسوں سے اٹکے بقایاجات کی ادائیگی کے لیے قیمتوں میں اضافے کی سفارش شرائط کے ساتھ منظور کر لی گئی ہے۔ فیصلے کے مطابق، یہ اضافہ واجب، مناسب اور صارفین کے لیے کِفایتی ہونا چاہیے۔
عدالت نے دہلی الیکٹریسٹی ریگولیٹری کمیشن (ڈی ای آر سی) کو ہدایت دی ہے کہ وہ ایک تفصیلی روڈ میپ تیار کرے، جس میں یہ طے کیا جائے کہ بجلی کی قیمتیں کب، کیسے اور کتنی بڑھائی جائیں۔ اس فیصلے کا اطلاق صرف دہلی ہی نہیں بلکہ اُن تمام ریاستوں پر ہوگا جہاں بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں برسوں سے بقایاجات کی منتظر ہیں۔
بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا کہنا ہے کہ انہیں بجلی کی خرید و فروخت اور ترسیل پر جو خرچ آتا ہے، وہ اس رقم سے کہیں زیادہ ہوتا ہے جو صارفین سے وصول کی جاتی ہے۔ یہ مالی فرق "ریگولیٹری اثاثہ" کہلاتا ہے، جس کا بوجھ بالآخر صارفین پر ہی آتا ہے۔ ریاستی حکومتیں اور ریگولیٹری کمیشن اکثر ان بقایاجات کو مؤخر کر دیتے ہیں لیکن ان پر سود بڑھتا رہتا ہے، جو بعد میں عام لوگوں کو ادا کرنا پڑتا ہے۔
رپورٹس کے مطابق، دہلی میں یہ بقایا 17 سال سے زیر التوا ہے اور اب اس کی رقم بڑھ کر 20 ہزار کروڑ روپے تک پہنچ چکی ہے۔ تمل ناڈو میں یہ بقایا 87 ہزار کروڑ روپے بتایا جا رہا ہے، جس کا اثر آئندہ برسوں میں وہاں کے صارفین پر بجلی کے بلوں میں اضافے کی شکل میں سامنے آ سکتا ہے۔
عدالت نے ہدایت دی ہے کہ تمام ریاستی ریگولیٹری اثاثے چار سال کے اندر ختم کیے جائیں۔ اس کے لیے ریاستی بجلی کمیشنز اور ٹریبونلز کو مؤثر طریقے سے کام کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ عدالت نے بجلی سے متعلق اداروں کی کارکردگی پر ناراضی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ان کی سُستی اور غیرفعالیت کی قیمت عام شہری چکا رہے ہیں۔
فیصلے میں واضح کیا گیا ہے کہ تمام تر اضافے دہلی سمیت ملک کی تمام ریاستوں میں رہائشی، تجارتی اور صنعتی صارفین پر لاگو ہوں گے۔ تاہم، یہ اضافہ صرف اُسی حد تک کیا جا سکتا ہے جو متعلقہ ریاستی بجلی ریگولیٹری کمیشنز نے مقرر کی ہو۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔