محکمہ بجلی نے ٹیوب ویلوں پر میٹر لگانے کے لئے طلب کی ’مسلح فورس‘، کسان بھی بضد، ٹکراؤ کا امکان

ٹیوب ویلوں پر میٹر لگانے کے خلاف یہ احتجاج مغربی اتر پردیش کے کئی اضلاع میں کیا جا رہا ہے، تاہم یہ شاملی ضلع میں اپنے عروج پر ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ 34 ہزار ٹیوب ویلوں میں صرف 1700 میٹر لگائے گئے ہیں

<div class="paragraphs"><p>تصویر آس محمد کیف</p></div>

تصویر آس محمد کیف

user

آس محمد کیف

اتر پردیش کے شاملی ضلع میں کسانوں اور محکمہ بجلی کے درمیان تصادم کے امکانات ہیں۔ مغربی اتر پردیش کے کسان محکمہ بجلی کی طرف سے ٹیوب ویلوں پر لگائے جا رہے میٹروں کی سخت مخالفت کر رہے ہیں۔ شاملی ضلع میں اس احتجاج سے نمٹنے کے لیے محکمہ بجلی نے ایک پلاٹون پی اے سی (پروونشیل آرمڈ کانسٹبلری) طلب کی ہے۔ شاملی کے ڈی ایم نے ایس پی شاملی کو خط بھیجا ہے کہ وہ اس کی اجازت دے کر انتظامات کریں۔ اس کے بعد سے کسانوں اور محکمہ بجلی کے درمیان تصادم کے امکانات ہیں۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ پی اے سی کی لاٹھی سے نہیں ڈرتے اور اپنے ٹیوب ویلوں پر میٹر نہیں لگانے دیں گے۔ دوسری جانب محکمہ بجلی کا کہنا ہے کہ وہ مارچ 2023 سے قبل 100 فیصد میٹر لگانے کے ہدف کو مکمل کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

ٹیوب ویلوں پر میٹر لگانے کے خلاف یہ احتجاج مغربی اتر پردیش کے کئی اضلاع میں کیا جا رہا ہے، تاہم یہ شاملی ضلع میں اپنے عروج پر ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ 34 ہزار ٹیوب ویلوں میں صرف 1700 میٹر لگائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ گاؤوں میں کچھ کسانوں نے میٹر لگائے؛ جانے کے بعد انہیں ٹیوب ویلوں سے اکھاڑ پاور ہاؤس پر پھینک دیے۔ ٹیوب ویلوں پر بجلی کے میٹر لگانے کا یہ معاملہ بہت گرم ہوتا جا رہا ہے۔ ’پشچمانچل ودیوت وترن نگم‘ اس کام میں بڑی تیزی دکھا رہا ہے، دوسری طرف کسان اپنے ٹیوب ویلوں پر میٹر لگانے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔ کسان لاٹھیاں لے کر ٹیوب ویلوں پر بیٹھ گئے ہیں اور محکمہ بجلی کے ملازمین کو میٹر لگانے نہیں دیتے۔ سب سے زیادہ مظاہرے مظفر نگر اور شاملی کے دیہی علاقوں میں ہو رہے ہیں۔ یہاں درجنوں گاؤوں میں محکمہ بجلی کے ملازمین کو بے رنگ لوٹنا پڑا۔ بعض مقامات پر کارکنوں کو یرغمال بنا لیا گیا۔ کسانوں میں یہ ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔


مقامی کسان لیڈر اکھلیش چودھری کا کہنا ہے کہ کسانوں کا احتجاج جائز ہے اور پی اے سی مسئلہ حل نہیں کر سکتی۔ طاقت کا سہارا لے کر آمرانہ انداز میں کسانوں کو دبایا نہیں جا سکتا۔ کسان میٹر کیوں نہیں لگانا چاہتا، اس پر ان کے خدشات ہیں، جن پر بات ہونی چاہئے۔ اکھلیش کا کہنا ہے کہ کسان ہارس پاور کے حساب سے ٹیوب ویل کا بل ادا کرتا ہے۔ فرض کریں کہ ایک کسان کے ٹیوب ویل پر 10 ہارس پاور کی موٹر ہے تو اس کا مطلب ہے کہ کسان کو 1700 کا بل ادا کرنا ہوگا۔ میٹر لگانے کے بعد یہ بل چار گنا ہو جائے گا۔ اب حکومت کہہ رہی ہے کہ میٹروں کی تنصیب کے بعد کسانوں کو بلوں پر باقی سبسڈی پہلے سے زیادہ دی جائے گی۔ اب تک تو ٹھیک ہے لیکن اب کسان اندیشوں میں گھرا ہوا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میٹر لگنے کے بعد گیس سلنڈر کی طرح یہ سبسڈی بھی بند ہو جائے گی اور کسانوں کو چار گنا بل ادا کرنا پڑے گا۔ جس کی وجہ سے کسان سراپا احتجاج ہیں اور کسانوں کو گمراہ کر کے جو میٹر لگائے گئے تھے انہیں ہٹا کر پھینکے جا رہے ہیں۔

شاملی ضلع کے رہنے والے کسان جنیشور چودھری سوال کرتے ہیں کہ بجلی کا محکمہ زبردستی فورس بلا کر اور میٹر لگا کر کسانوں کے دلوں کو ٹھیس پہنچا کر کیا ثابت کرنا چاہتا ہے؟ پہلے تو ہم میٹروں کی تنصیب کی اجازت نہیں دیں گے چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ اب ہمارے پاس کچھ سوالات ہیں جن کا جواب محکمہ کو دینا چاہیے۔ جب بجلی کا محکمہ گاؤں میں میٹر لگا رہا تھا تو اسی طرح کے خدشات پیدا ہو رہے تھے۔ تمام خدشات درست ثابت ہوئے اور گاؤں میں بجلی بہت مہنگی ہو گئی۔ اس سے کسان پریشان ہے۔ اب فصل کی تمام رقم محکمہ بجلی کو جائے گی۔ حکومت مفت بجلی دینے کی بات کر رہی تھی لیکن اب حالات یہ ہیں کہ یوپی سے زیادہ مہنگی بجلی کہیں نہیں ہے! محکمہ کہہ رہا ہے کہ اس کے بعد اسمارٹ میٹر لگائے جائیں گے۔ فرض کریں ایسی صورت حال میں اگر کسان کے پاس بجلی کے ری چارج کے پیسے نہیں ہیں تو اس کی فصل پانی کے بغیر تباہ ہو جائے گی!


وہیں، اس معاملہ پر شاملی کی ضلع مجسٹریٹ جسجیت کور سے پی اے سی کا مطالبہ کرنے والے سپرنٹنڈنٹ انجینئر رام کمار کا کہنا ہے کہ حکومت نے بغیر میٹر والے نجی ٹیوب ویلوں کے صارفین کو مارچ 2023 تک 100 فیصد میٹر لگانے کی ہدایت دی ہے لیکن کسانوں کی کچھ تنظیموں اور کسانوں کے نمائندوں نے اس کی شدید مخالفت کی ہے۔ کئی بار ان کے ملازمین کو بھی یرغمال بنایا جا چکا ہے، اس لیے وہ پی اے سی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہم اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ کئی مقامات پر کسانوں نے میٹر اکھاڑ کر پھینک دیے ہیں۔ پی اے سی ہونے کی صورت میں ہم بے خوف ہو کر اپنا کام کر سکیں گے۔ ہماری کسی کسان سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */