’دفعہ 324 کا استعمال کر الیکشن کمیشن نے خود اپنی غیر جانبداری پر لگایا سوالیہ نشان‘

ماہرین آئین کا کہنا ہے کہ انتخابی کمیشن کے پاس سزا پر مبنی کارروائی کرنے کا حق نہیں ہے۔ وہ صرف کسی ایک شخص کو تشہیرکرنے سے روک سکتا ہے نہ کہ پوری انتخابی تشہیر پر پابندی عائد کر دے گا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ایشلن میتھیو

’’انتخابی کمیشن کو دفعہ 324 کے تحت انتخابی تشہیر پر روک لگانے کا اختیار نہیں ہے۔ انتخابی تشہیر سبھی سیاسی پارٹیوں کا حق ہے تاکہ وہ ووٹروں کو اپنی پالیسیوں کے بارے میں بتا سکیں۔ تشہیر پر روک لگا کر انتخابی کمیشن نے آزادانہ اور غیر جانبدار انتخاب کرانے کی راہ میں رخنہ پیدا کیا ہے۔‘‘ یہ کہنا ہے لوک سبھا کے سابق جنرل سکریٹری اور ماہر آئین پی ڈی ٹی آچاری کا۔ انھوں نے کہا کہ ’’تشہیر کرنا انتخابی عمل کا حصہ ہے اور سیاسی پارٹی کا اختیار بھی۔‘‘

انھوں نے بتایا کہ ’’دفعہ 324 انتخابی کمیشن کو غیر جانبدار اور آزاد انتخاب کرانے کا اختیار دیتی ہے۔ یہ دفعہ آئینی ادارہ ہونے کے باوجود انتخابی کمیشن کو غیر محدود اختیارات نہیں دیتی۔‘‘ آچاری کہتے ہیں کہ ’’اگر کوئی شخص تشہیر کے دوران فرقہ وارانہ جذبات مشتعل کرنے والا بیان دیتا ہے یا اس کے بیانات سے تشدد برپا ہوتا ہے تو انتخابی کمیشن اس کے ذریعہ تشہیر کرنے پر روک لگا سکتا ہے۔‘‘ انھوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ انتخابی کمیشن کے پاس کسی کو سزا دینے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔


غور طلب ہے کہ انتخابی کمیشن نے 15 مئی کو حکم جاری کر مغربی بنگال میں آخری مرحلہ کی انتخابی تشہیر پر روک لگا دی اور اسے طے وقت سے 19 گھنٹے پہلے ہی ختم کرنے کی ہدایت جاری کر دی۔

کمیشن نے یہ حکم ایک دن پہلے کولکاتا میں بی جے پی صدر امت شاہ کے روڈ شو کے دوران ہوئے تشدد کے مدنظر دیا۔ روڈ شو کے دوران بھگوا پہنے شرپسندوں نے تشدد کا ماحول پیدا کیا تھا۔ یہ شر پسند ودیاساگر کالج میں گھس گئے تھے اور وہاں رکھی ایشور چند ودیاساگر کی مورتی کو توڑ دیا تھا۔ ودیاساگر کو مغربی بنگال میں بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔


آچاری کہتے ہیں کہ ’’دفعہ 324 کا استعمال تبھی ہو سکتا ہے جب ریاست میں قانون کی حفاظت کرنے والا نظام منہدم ہو جائے۔ انتخابی کمیشن ریاستی حکومت کے یکساں کوئی حکومت نہیں ہے۔‘‘

اس درمیان انتخابی کمیشن نے جمعرات کو ایک حکم جاری کر ڈائمنڈ ہاربر کے ایس ڈی پی او متھن کمار جے اور اہمہرسٹ اسٹریٹ کے دفتر انچارج کوشک داس کو فوری اثر سے ان کی ذمہ داری سے سبکدوش کر دیا۔ کمیشن نے کہا کہ ان دونوں افسروں کو انتخاب کے دوران کوئی ڈیوٹی نہیں دی جائے گی۔


لیکن پی ڈی ٹی آچاری کہتے ہیں کہ ’’الیکشن کمیشن کو کسی افسر یا ملازم کو معطل کرنے یا اس کا تبادلہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔‘‘ انھوں نے کہا کہ اگر ایسی حالت بنتی ہے تو انتخابی کمیشن ریاستی حکومت کو ایسے افسران کے معاملے میں کارروائی کرنے کو کہہ سکتا ہے۔‘‘ انھوں نے کہا کہ انتخابی کمیشن آئینی ادارہ ہے اور اس کے پاس محدود اختیار ہی ہیں۔

اس درمیان کولکاتا پولس نے خصوصی جانچ ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دیا ہے جو ودیاساگر کالج میں ایشور چند ودیاساگر کا مجسمہ توڑے جانے کی جانچ کرے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔