بہار میں ’ایس آئی آر‘ سے متعلق الیکشن کمیشن کو لگا جھٹکا، سپریم کورٹ نے ’آدھار‘ قبول کرنے کی دی ہدایت!
عدالت عظمیٰ نے کہا کہ انتخابی افسران کے ذریعہ آدھار کارڈ کو بارہویں دستاویز کی شکل میں قبول کیا جائے گا۔ آدھار کارڈ کی صداقت اور اصلیت کی جانچ کا حق افسران کے پاس رہے گا۔

بہار میں ایس آئی آر، یعنی ووٹر لسٹ کی خصوصی گہری نظرثانی معاملہ پر سپریم کورٹ نے آج ایک انتہائی اہم فیصلہ صادر کیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلہ کے خلاف عرضیوں پر عدالت عظمیٰ نے پیر کے روز سماعت کی، اور پھر اپنا فیصلہ سناتے ہوئے واضح لفظوں میں کہا کہ انتخابی افسران کے ذریعہ آدھار کارڈ کو بارہویں دستاویز کی شکل میں مانا جائے گا۔ ساتھ ہی عدالت نے کہا کہ آدھار کارڈ کی صداقت اور اصلیت کی جانچ کرنے کا حق افسران کو رہے گا۔ اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ آدھار کارڈ کو شہریت کے ثبوت کی شکل میں قبول نہیں کیا جائے گا، الیکشن کمیشن اس حکم کی جانکاری اپنی ویب سائٹ پر اپلوڈ کرے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل راکیش دویدی نے آج ہوئی سماعت کے دوران اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ آدھار شناخت کا ثبوت ہو سکتا ہے، شہریت کا نہیں۔ جواب میں عرضی دہندگان کے وکیل کپل سبل نے زور دے کر کہا کہ یہ بارہواں دستاویز ہوگا، جسے انھیں قبول کرنا ہوگا۔ گوپال شنکر نارائن نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے سوال کیا کہ وہ آخر اس کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟ جسٹس کانت نے بھی پوچھا کہ اگر آدھار کارڈ کو بارہواں دستاویز مانا جاتا ہے تو اس میں مسئلہ کیا ہے؟ جواب میں ایڈووکیٹ راکیش دویدی نے کہا کہ آدھار کارڈ کو پاسپورٹ کی طرح نہیں دیکھا جا سکتا۔
سپریم کورٹ نے دونوں فریقین کی دلیلوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن کے وکیل سے کہا کہ آدھار سے اگر کوئی درخواست دیتا ہے، اور اگر آپ کو شبہ ہے تو جانچ کرا لیں۔ جواب میں الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہم پاسپورٹ کی طرح آدھار کو قبول نہیں کر سکتے۔ بہار کے لوگ 11 دستاویزات کو پیش کرنے میں اہل بھی ہیں۔ اس دلیل پر جسٹس کانت نے کہا کہ لوگوں نے ہر طرح کے دستاویزات جعلی بنائے ہیں، لیکن الیکشن کمیشن ان کی جانچ کر سکتا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ آدھار سے متعلق قانون بالکل واضح ہے۔ آدھار آفیشیل دستاویزات میں سے ایک ہے۔ الیکشن کمیشن اسے قبول کریں گے اور اس کی جانچ کریں گے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل دویدی نے ایک دلیل یہ بھی پیش کی کہ آدھار کو ڈیجیٹل طور پر اپلوڈ کیا جا سکتا ہے۔ قانونی افسران کو بھی اپلوڈ کرنے کی اجازت ہے۔ ہم اسے شہریت کا ثبوت نہیں مان رہے ہیں۔ ہم اس بات سے متفق نہیں ہے کہ الیکشن کمیشن کو ووٹر لسٹ ترمیم کے لیے یہ مقرر کرنے کا حق نہیں ہے کہ کوئی شخص شہری ہے یا نہیں۔ ووٹر لسٹ کے ضمن میں ہمیں اس کی جانچ کرنے کا حق ہے۔ سپریم کورٹ نے اس تعلق سے کہا کہ ہم مانتے ہیں آدھار شہریت کا ثبوت نہیں ہے، لیکن ایک دستاویز ہے جو راشن کارڈ یا ای پی آئی سی کی طرح ہے۔ یہ سن کر دویدی نے کہا کہ ہم آدھار کو سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق اور قانون کے مطابق قبول کر رہے ہیں۔ لیکن اسے شہریت کا ثبوت نہیں مان رہے ہیں، ہم شہریت نہیں جانچ رہے ہیں۔ جواب میں سبل نے کہا کہ اس عدالت کے 3 احکامات ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ آدھار کو قبول کیا جائے۔ اس معاملے میں بی ایل او کا بیان ہے کہ آدھار قبول نہیں کیا جا سکتا، اور بی ایل او عدالتی احکام کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ کپل سبل نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن 11 دستاویزات کے علاوہ دیگر دستاویز قبول کرنے والے افسران کو سزا دے رہا ہے۔ بی ایل او کو 11 دستاویزات کے علاوہ دیگر دستاویز قبول کرنے پر وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا گیا ہے۔ یہ سن کر جسٹس کانت نے وجہ بتاؤ نوٹس دکھانے کی ہدایت دی۔
الیکشن کمیشن اور عرضی دہندگان کے وکلاء کے ذریعہ مختلف دلائل پیش کیے جانے کے بعد جسٹس سوریہ کانت نے ایڈووکیٹ کپل سبل سے سوال کیا کہ کیا آپ شہریت کے ثبوت کی شکل میں آدھار کو قبول کرنا چاہتے ہیں؟ جواب میں سبل نے کہا کہ ’’نہیں، رہائش سرٹیفکیٹ کی شکل میں۔ بی ایل او ویسے بھی شہریت طے نہیں کر سکتا۔ الیکشن کمیشن نے ہدایت جاری کی ہے کہ صرف آدھار کو قبول نہ کیا جائے۔ میں صرف آدھار کو قبول کرنا چاہتا ہوں تاکہ میں ووٹ دے سکوں۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔