چناوی چوپال: مظفرنگر فساد کی خوفناک یادوں کو بھلا کر اتحاد کے ساتھ کھڑا ہے اقلیتی طبقہ

اس دلچسپ گفتگو میں اقلیتوں کے ذہن کو سمجھنے کا موقع ملا اور یہ اندازہ ہوا کہ وہ 2013 کے فسادات کی خوفناک یادوں کو بھلا کر چودھری اجیت سنگھ کے ساتھ کھڑے ہو گئے ہیں۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

سید خرم رضا

مظفر نگر واقع کھتولی اسمبلی حلقہ کے گاؤں گدن پورا میں جاٹ اور سینی برادری کے لوگوں کی رائے جاننے کے بعد ہم نے ایسے علاقہ کے لوگوں کی رائے جاننی چاہی جس کی آبادی صرف اور صرف اقلیتوں کی ہو۔ اس کے لئے ہم نے مظفر نگر کے محلہ کھالاپار کا رخ کیا اور وہاں پر ایک مقامی تنظیم پیغام انسانیت کے دفتر میں اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگوں کو بلایا اور سب سے بات کر کے ان کے ذہن کو پڑھنے کی کوشش کی۔

جیسے جیسے ہم اپنی منزل کی طرف بڑھ رہے تھے ویسے ویسے اندازہ ہو رہا تھا کہ اس علاقہ میں کس طرح کی آبادی رہتی ہے۔ راستے میں کئی جگہ پر برقع میں لڑکیاں اسکوٹی چلاتی نظر آئیں۔ سڑکوں کے دونوں طرف کی دکانوں سے اندازہ ہو رہا تھا کہ یہاں رہنے والا اقلیتی طبقہ خوشحال ہے۔ اس دورہ میں ایک خاص بات یہ دیکھنے کو ملی کہ جب ہم نے لوگوں سے 2013 کے فسادات کا تذکرہ کیا تو وہ اس کے اثرات سے باہر نکلتے ہوئے معلوم ہوئے۔ عوام کے ساتھ ساتھ مارکیٹ میں بھی اس فساد کے اثرات پوری طرح غائب نظر آئے۔ اسی کے ساتھ علاقہ کے اکثریتی طبقہ کی باتوں سے یہ محسوس ہوا کہ وہ دل سے اس بات کو مان رہے ہیں کہ 2013 میں جو کچھ ہوا وہ غلط تھا اور اس کا 2014 میں بی جے پی کو فائدہ ضرور ہوا۔

الگ الگ شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے لوگ ہماری انتخابی چوپال میں پہنچے اور بہت کھل کر انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ جہاں ان کا یہ ماننا تھا کہ 2014 کے عام انتخابات میں مظفر نگر فسادات کا واضح اثر تھا اور اس کا اثر نتائج میں بھی نظر آیا وہیں ان کا یہ بھی خیال تھا کہ اب موجودہ بی جے پی حکومت کے لوگ پلوامہ اور بالاکوٹ کے نام پر ویسا ہی ماحول پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن وہ اس کوشش میں کامیاب ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ بی جے پی کی اس ناکامی کے لئے جہاں وزیر اعظم سے بڑھتی ناراضگی ہے وہیں چودھری اجیت سنگھ کی گزشتہ ایک سال میں کی گئی کوششوں کا بھی بہت دخل ہے۔

گفتگو کے دوران ایک مقامی شخص نے بتایا کہ اجیت سنگھ نے پچھلے ایک سال میں اقلیتوں اور اکثریت کے درمیان پیدا ہوئی کھائی کو پاٹنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ اس گفتگو میں لوگ اس بات سے خوفزدہ نظر آئے کہ اگر مودی حکومت دوبارہ اقتدار میں آ گئی تو ملک کا آئین خطرے میں پڑ جائے گا۔ اس کے لئے وہ ساکشی مہاراج کے اس بیان کا بھی حوالہ دیتے ہیں جس میں انھوں نے کہا تھا کہ بی جے پی اس مرتبہ اقتدار میں واپس آئی تو پھر انتخابات کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ ویسے بھی گنّے کے بقایہ کو لے کر مقامی لوگ نہ صرف پریشان ہیں بلکہ وہ کسانوں کے بڑھتے مسائل کے لئے بی جے پی کی ریاستی اور مرکزی حکومت کو برابر کا ذمہ دار مانتے ہیں۔

آپ ویڈیوں میں لوگوں کی رائے سنیں گے لیکن اقلیتوں کا ایک بات پر زیادہ زور نظر آیا کہ ان کی ترجیح اپنی قیادت نہیں بلکہ ان کی ترجیح سیکولر قیادت ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اکثریتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں کی قیادت قبول کی ہے۔ چاہے وہ اندرا گاندھی ہوں، چودھری چرن سنگھ ہوں یا منموہن سنگھ ہوں۔ اس دلچسپ گفتگو میں اقلیتوں کے ذہن کو سمجھنے کا موقع ملا اور اندازہ ہوا کہ وہ 2013 کے فسادات کی خوفناک یادوں کو بھلا کر چودھری اجیت سنگھ کے ساتھ کھڑے ہو گئے ہیں۔ چودھری اجیت سنگھ بی جے پی کے خلاف اتحاد کے رہنما ہیں۔ بہر حال، کل ہم آپ کو سہارنپور کے مسلم اقلیتوں کی ایک چوپال میں لے کر چلیں گے جہاں یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ وہاں کی اقلیتیں کیا سوچ رہی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 30 Mar 2019, 7:10 PM