احسان جعفری کی بیٹی کا سنجیو بھٹ کی اہلیہ سے سوال

نشرین جعفری حسین نے شویتا بھٹ سے کہا کہ ’’آپ کیا سمجھتی ہیں کہ جس شہر میں آپ رہتی ہیں اور جن لوگوں کو آپ ’میرے دیش واسی‘ کہتی ہیں ان کو اس سے کوئی مطلب ہے کہ آ پ پر کیا گزر رہی ہے۔‘‘

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

سال 2002 کے فسادات میں جلا کر قتل کیے گئے سابق رکن پارلیمنٹ احسان جعفری کی بیٹی نے جیل میں قید آئی پی ایس افسر سنجیو بھٹ کی اہلیہ کے نام دل کو چھو لینے والا خط لکھا ہے ۔ یہ خط انہوں نے اپنی فیس بک وال پر تحریر کیا ہے۔ احسان جعفری کی بیٹی نے اپنے تجربہ کی روشنی میں تحریر کیا ہے کہ یہ ہندوستان ہے اور یہاں ایسی جدوجہد لمبی اور تکلیف دہ ہوتی ہیں۔

فیس بک پر لکھی تحریر کا متن

ڈیئر شویتا سنجیو بھٹ

ہندوستان میں انصاف اور انسانی حقوق کے لئے لڑائی ایک لمبی جدو جہد ہے۔

ایک مرتبہ تیستا سیتلواڈ نے ایک انٹرویو میں یہ جملہ کہا تھا اور پھر کئی روز تک میں اس جملہ کی گہرائی سمجھنے کی کوشش کرتی رہی۔ روز اول سے مجھے بہت اکیلے پن کا احساس تھا لیکن مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میں اس کا ا ظہار کیسے کروں۔ اگر آپ کو اندازہ نہیں ہوا ہوتا تو میں بتا دوں کہ آپ کے شوہر نے جو راستہ اختیار کیا ہے وہ آپ کے اور آپ کے بچوں کے لئے کتنا اکیلے پن کا، لمبا اور مشکل ہے۔


میری والدہ 1960 میں جب احمدآباد آئی تھیں تو اس وقت وہ 23 سال کی تھیں اور 2002 میں جب ان کی عمر 60 سال کی تھی تو انہوں نے اسی ساڑی میں اپنا گھر چھوڑا تھا جو انہوں نے 28 فروری کو پہنی تھی۔ چمن پورا میں اپنے گھر سے لے کر گاندھی نگر تک کی ان سڑکوں اور گلیوں میں وہ پناہ کی تلاش میں گھومتی رہیں اور کسی کا دروازہ ان کے لئے نہیں کھلا۔ آخر ان کو گاندھی نگر میں ایک دوست کے گھر میں جا کر پناہ ملی۔

آپ کیا سمجھتی ہیں کہ جس شہر میں آپ رہتی ہیں اور جن لوگوں کو آپ ’میرے دیش واسی‘ کہتی ہیں ان کو اس سے کوئی مطلب ہے کہ آ پ پر کیا گزر رہی ہے۔

احمد آباد میں جتنے بڑے لوگ رہتے ہیں اور جو میرے والد کے پرانے دوستوں میں سے تھے کوئی بھی میری والدہ کی مدد کرنے کے لئے نہیں آیا۔ یہاں تک کے وہ بھی جنہوں نے میری والدہ کے باورچی خانہ میں میرے والد کے ساتھ بریانی اور قورمہ کھایا تھا، احمدآباد کے وہ لاکھوں لوگ جن کے ساتھ میرے والد نے کام کیا تھا، انتخابات لڑے تھے، مقدمات لڑے تھے، جلسوں میں شرکت کی تھی، مظاہروں میں ساتھ بیٹھے تھے، ہولی، دیوالی اور عید ساتھ منائی تھی اور اس کے علاوہ متعدد چیزیں ساتھ کی تھیں، میری والدہ کی مدد کے لئے نہیں آئے۔ اس خبر کے پھیلنے کے بعد بھی کہ میرے والد اور ان کے ساتھ سینکڑں لوگوں کو بے دردی کے ساتھ قتل کر دیا گیا ہے اور میری والدہ نے گاندھی نگر میں پناہ لی ہے، جب بھی کوئی نہیں آیا۔ آپ کیا سمجھتی ہیں کہ کیا آپ کے شوہر کے اس ملک اور شہر کی خدمت کرنے کے جواب کی وجہ سے، آ پ کے شوہر کی تعلیم اور سروس کی وجہ سے، ان کی ایمانداری کی وجہ سے یہاں کے لوگ آپ کی جدو جہد میں آپ کا ساتھ دیں گے؟


اتنا بڑا کوئی واقعہ اگر کناڈا میں پیش آئے جہاں سابق رکن پارلیمنٹ کو اس کے گھر میں 169 لوگوں کے ساتھ ظالمانہ طریقہ سے جلا کر قتل کر دیا جائے تو کناڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹوڈو اور ان کی پوری کابینہ پارلیمنٹ بند کر کے متاثرین کی مدد کے لئے کھڑے نظر آئیں گے۔

سال 2002 میں اور آ ج بھی ہندوستان کے تین سب سے امیر کاروباری گجرات سے ہیں لیکن ان کی خواتین جو امداد ی کام کرنے میں فخر محسوس کرتی ہیں وہ بھی مدد کے لئے آگے نہیں آئیں۔ آپ کیا سمجھتی ہیں کہ چونکہ آپ خوبصورت ساڑی پہنتی ہیں اور ماتھے پر بندی لگاتی ہیں وہ آپ کو انسان سمجھیں گے اور وہ اس جدو جہد میں آپ کی مدد کریں گے؟


لاکھوں ہندوستانی خواتین روزانہ صبح اپنے شہر اور گاؤں میں عبادت کے لئے جاتی ہیں لیکن اس دن کسی نے نہیں سوچا تھا کہ جس شہر میں وہ سب کے ساتھ رہتی ہیں اس میں پورا ایک طبقہ اپنے بچوں اور بوڑھے والدین کے ساتھ بیٹھنے اور سونے کے لئے جگہ ڈھونڈے گا۔

ٹیچروں سے بھرے گجرات کے اسکول، کالج اور خواتین پروفیسر سے بھری یونیورسٹیوں میں خواتین اپنے روز مرہ کے کام میں مشغول تھیں جب سماج کے ایک طبقہ کو گھروں سے باہر پھینک دیا گیا، کچھ اپنے زخمی والدین اور بچوں کو ان کپڑوں میں لئے ہوئے جا رہی تھیں جو انہوں نے کئی روز سے تبدیل نہیں کیے تھے، جلی ہوئی ہزاروں لاشوں میں سے اپنے پیاروں کی لاشوں کو ڈھونڈ رہی تھیں، کچھ مسلم علاقوں کے اسکول جن کو پناہ گزین کیمپوں میں تبدیل کر دیا تھا وہ ان میں سخت فرش پر بیٹھنے اور سونے کی کوشش کرتے ہیں اور کچھ قبرستان کے کونوں میں جگہ ڈھونڈنے کی کوشش میں لگے ہیں۔


کیا آپ یہ سوچتی ہیں کہ ان لوگوں کو کوئی فکر ہے کہ آپ پر اس وقت کیا گزر رہی ہے جب آپ کے شوہر فاشسٹ قوتوں سے لڑنے کی وجہ سے جیل میں ہیں؟ اگر ہم دوسرے کسی بھی دور میں اور ملک میں ہوتے تو تمام افسران ہڑتال پر چلے گئے ہوتے اور سنجیو جی پر کیے جانے والے مظالم کو روکنے کا مطالبہ کرتے۔ لیکن میری دوست آپ ہندوستان میں ہیں، یہاں ہم کو روزانہ نفرت کی وہ ڈوز دی جاتی ہے جو ہمیں تقسیم کرتی ہے۔ اگر ہمارے اوپر کوئی آفت آئے تو میری دعا ہے کہ وہ آفت قدرتی ہو نہ کہ سیاسی اور مذہبی، جس کی بنیاد نفرت ہو۔ جو اس نفرت کے شکار ہوئے ہیں صرف وہی جانتے ہیں کہ یہ راستہ کتنا سنسان ہے۔ آپ کے شوہر سنجیو بھٹ اور آپ کے لئے تمام محبت اور دعائیں۔

آپ کی

نشرین جعفری حسین

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 25 Jun 2019, 1:10 PM