سبسڈی ختم ہونے سے حجاج پر کیا اثر پڑے گا؟

مودی حکومت کی طرف سے ہندوستانی عازمین کو دی جانے والی سبسڈی ختم کر دینے سے حجاج پر کیا اثر پڑے گا اور ان پر کتنا مالی بوجھ پڑ سکتا ہے ’قومی آواز‘ نے اس کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔

حرم شریف کی فائل تصویر
حرم شریف کی فائل تصویر
user

سید خرم رضا

سپریم کورٹ نے جس سبسڈی کو 2022 تک ختم کرنےکے لئے کہا تھا اس کو ختم کرنے کی عجلت سمجھ میں نہیں آئی۔ نریندر مودی حکومت نے سبسڈی ختم کرنے کا جو اچانک فیصلہ لیا ہے اس کے پیچھے ووٹ بینک کی سیاست کے علاوہ کچھ اور نظر نہیں آ رہا۔ حکومت نے اس فیصلے سے بی جے پی ووٹروں کو پیغام دے دیا کہ ہم نے مسلمانوں سے حج پر جانے کے لئے ملنے والی سبسڈی چھین لی ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں نے طلاقہ ثلاثہ کی طرح اس فیصلے کا بھی خیر مقدم کیا ہے۔ جس طرح طلاقہ ثلاثہ کے تعلق سے مسلمانوں میں کئی طرح کے سوال تھے اور وہ چاہتے تھے کے مسلم پرسنل لاء بورڈ اس میں کوئی قدم اٹھائے اسی طرح سے مسلمانوں کو اس بات کا بھی احساس تھا کہ مذہب کی رو سے حج کے لئے سبسڈی لینا صحیح نہیں ہے۔ اب دونوں معاملوں میں حکومت نے فیصلے اپنی ووٹ بینک کی سیاست کو نظر میں رکھتے ہوئے کیا ہے لیکن اس سے مسلمانوں کی خواہش ہی پوری ہوئی ہے۔ تبھی تو کہا جاتا ہے کہ ’ہر ایک شر میں خیر کا پہلو چھپا ہوا ہے۔‘

اگلے ماہ ہوائی جہاز کے کرائے کے تعلق سے ٹینڈر طلب کئے جانے ہیں لیکن جو کرایا گزشتہ سال یعنی 2017 کے حج کے لئے طے ہوا وہ 62045 روپے فی حاجی تھا۔ جس امبارکیشن پوائنٹ سے جو حاجی جائے گا اس پر سبسڈی ختم ہونے کی وجہ سے الگ الگ اضافی مالی بوجھ پڑے گا۔ واضح رہے گزشتہ سال الگ الگ امبارکیشن پوائنٹ سے جانے پر الگ الگ کرائے تھے اور جو اضافی کرایا تھا وہ حکومت نے سبسڈی کے طور پر دیا تھا۔ اس وجہ سے ممبئی، حیدرآباد اور احمد آباد ہوائی اڈوں سے جانے والے حجاج کو کوئی سبسڈی نہیں ملی تھی کیونکہ وہاں کے لئے جو جہاز کا کرایا طے ہوا تھا وہ 62045روپے سے کم تھا۔ واضح رہے گزشتہ سال اورنگ آباد سے جانے والے حاجی کو 80748کو ہوائی جہاز کریا دینا پڑا تھا یعنی اسکو حکومت کی جانب سے 18700روپے کی سبسڈی ملی تھی کیونکہ ٹنڈر میں کرایا 62045روپے تھا اس لئے اس کرائے کے اوپر کی رقم حکومت نے سبسڈی دی تھی۔ یہاں یہ بات واضح کرنی ضروری ہے کہ سال 2016میں یہ کرایا 45000 تھا جو سال 2017میں 62045روپے ہو گیا تھا۔ یہ اتنا بڑا اضافہ مودی حکومت کے دور میں ہوا تھا۔ گزشتہ سال گوہاٹی سے جانے والے حاجی کو سب سے زیادہ سبسڈی ملی تھی کیونکہ وہاں پر جہاز کا کرایا 111723روپے تھا اس لئے سبسڈی کے طور پر وہاں کے حاجی کو 49650 ملے تھے۔ شری نگر، گیا اور رانچی سے جانے والے حجاج کو 40000 سے زیادہ کی سبسڈی ملی تھی۔ دہلی سے جانے والے حاجی کو محض 6300روپے کی سبسڈی ملی تھی یعنی ایک طرح سے دہلی والوں کو صرف 6300 روپے کی مالی رعایت ملی تھی۔ واضح رہے ان کرایوں میں ائیر پورٹ ٹیکس شامل نہیں ہے۔گزشتہ سال دہلی والوں کو ائیر پورٹ ٹیکس شامل کرنے کے بعد 73000روپے دینے پڑے تھے۔

قومی آواز گرافکس
قومی آواز گرافکس

گزشتہ سال جو حاجی گرین کیٹیگری میں گئے تھے یعنی جن کی رہایش حرم شریف سے قریب تھی ان کو 2,37,000روپے حج سفر پر خرچ کرنے پڑے تھے اور جن کی رہائش عزیزیہ میں تھی ان کو 2,03,000روپے ادا کرنے پڑے تھے۔ حج امور کے ماہرین اور مسلم تنظیموں کا ماننا یہ ہے کہ سعودی حکومت اور ہندوستانی حکومت کی ملی بھگت کی وجہ سے کرائے زیادہ ہیں اگر حج پروازوں کے لئے گلوبل ٹنڈر طلب کئے جائیں تو یہ کرائے بہت کم ہو جائیں گے جس کا فائدہ حاجی کو سبسڈی سے زیادہ ہو جائے گا۔ سعودی ایئر لائنس کے پاس اپنے جہاز نہیں ہیں اس لئے وہ ان ائیر لائنس کی خدمت لیتی ہے جن کے جہاز خالی کھڑے ہوتے ہیں اگر گلوبل ٹنڈر ہوں گے تو یہ ائیر لائنس ٹنڈر میں خود حصہ لیں گی اور کرائے بہت کم ہو جائیں گے۔ واضح رہے ہم اگر کسی بھی ائیر لائنس سے بہت پہلے ٹکٹ لیتے ہیں تو ہمیں زبردست رعایت ملتی ہے یہاں تو ایک سال پہلے وقت کا پتہ چل جاتا ہے، کوئی سیٹ خالی نہیں جاتی اور اتنا بڑا کاروبار ائیر لائنس کو ملتا ہے اس لئے اگر حکومت اس میں گلوبل ٹنڈر طلب کرے تو اس کا حجاج کو زبردست مالی فائدہ ہوگا۔

حج سبسڈی ختم کرنے پر ایک بڑا سوال یہ بھی ہے کہ جو کروڑوں کی دوائیں حجاج کےلئے جاتی تھیں اور 400 کے آس پاس ڈپیوٹیشن پر سرکاری ملازمین خادم الحجاج کے طور پر جاتے تھے اور یہ اخراجات سبسڈی کا حصہ ہوتے تھے تو اب یہ کس مد سے خرچ ہو گا۔ اس کا بوجھ کیا حاجی کو اٹھانا پڑے گا یا وزار برائے اقلیتی امور کو۔ اگر یہ بوجھ حاجی پر ڈالا گیا تو حج اور مہنگا ہو جائے گا۔

حکومت نے کسی بھی وجہ سے سبسڈی ختم کی ہو اس سے کوئی اعتراض نہیں لیکن حکومت کو چاہئے کہ وہ پروازوں کے لئے گلوبل ٹنڈر طلب کرے تاکہ حجاج کو فائدہ ہو نہ کہ ائیر لائنس کو۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 18 Jan 2018, 8:04 AM