شراب گھوٹالہ کے سلسلہ میں ای ڈی کی کارروائی جاری؛ دہلی، یوپی اور پنجاب سمیت متعدد ریاستوں میں چھاپہ ماری

شراب کے مبینہ گھوٹالہ کے سلسلہ میں کارروائی کرتے ہوئے مرکزی ایجنسی ای ڈی نے دہلی کے علاوہ یوپی اور پنجاب کے کاروباریوں کے 35 مقامات پر بیکوقت چھاپے مارے

علامتی تصویر، ای ڈی
علامتی تصویر، ای ڈی
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: قومی راجدھانی دہلی کے مبینہ شراب گھوٹالوں کے تعلق سے چھاپہ ماری کا سلسلہ لگاتار جاری ہے۔ اس ضمن میں منگل کے روز ای ڈی نے دہلی سمیت کئی ریاستوں میں بیکوقت 35 مقامات پر چھاپے مارے۔ دہلی کے علاوہ ای ڈی نے گڑگاؤ، لکھنؤ، حیدرآباد، ممبئی، بنگلورو اور پنجاب کے شہروں میں بھی چھاپے مارے ہیں۔ تحقیقاتی ایجنسی کے نشانے پر شراب کے تاجر ہیں۔ ای ڈی کی اس کارروائی میں دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا کا گھر شامل نہیں ہے۔

تحقیقاتی ایجنسی نے میسرز انڈو اسپرٹ کے منیجنگ ڈائریٹر سمیر مہندرو کے ٹھکانے پر بھی چھاپہ مارا ہے، جو دہلی کے جور باغ علاقے میں رہتا ہے۔ ان پر میسرز رادھا انڈسٹریز کے راجندر پلیس کے یوکو بینک کے کھاتہ میں ایک کروڑ روپے منتقل کرنے کا الزام ہے۔ مہندرو کے گارڈ نے بتایا کہ ای ڈی کی ٹیم صبح 7 بجے کے قریب پہنچی تھی۔ ٹیم گھر کے ایک فرد کے ساتھ یہاں سے چلی گئی۔


دراصل، دہلی میں کیجریوال حکومت نے نئی شراب پالیسی متعارف کرائی تھی، جس کے بعد راجدھانی کے شراب فروش گاہکوں کو رعایتی نرخوں پر شراب فروخت کر رہے تھے۔ کئی مقامات پر تو ایک بوتل خریدنے پر دوسری مفت دی جا رہی تھی۔

ایکسائز پالیسی 2021-22 کی وجہ سے ایک وقت میں دہلی میں شراب کی دکانوں کی تعداد تقریباً 650 تک پہنچ گئی تھی۔ تحقیقاتی ایجنسی نے نئی شراب پالیسی میں گھوٹالہ کا دعویٰ کیا تھا، جس کے بعد لیفٹیننٹ گورنر وی کے سکسینہ نے سی بی آئی انکوائری کی سفارش کر دی۔ اس کے بعد دہلی حکومت نے ایکسائز پالیسی 2021-22 کو واپس لے لیا۔

ریاست میں یکم ستمبر سے پرانی شراب پالیسی کو دوبارہ نافذ کیا گیا ہے۔ متعدد لائسنس ہولڈرز نے نئی پالیسی کے نافذ ہونے سے پہلے ہی اپنے لائسنس سرنڈر کر دیے تھے۔

شراب کے مبینہ گھوٹالہ میں دہلی کے نائب وزیر اعلی منیش سسودیا کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ انہیں اس معاملے میں کلیدی ملزم بنایا گیا ہے۔ سی بی آئی ان سے مبینہ شراب گھوٹالہ کے سلسلہ میں کافی دیر تک پوچھ گچھ کر چکی ہے۔ سی بی آئی کی ٹیم نے ان کے گھر سے خفیہ دستاویزات برآمد کرنے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔