عام انتخاب 2019: چوتھے مرحلہ کی خبروں نے اڑائے بی جے پی کے ہوش

بی جے پی کو لوک سبھا انتخاب کے چوتھے مرحلے میں اتر پردیش اور مہاراشٹر سے بڑا جھٹکا لگنے کے آثار ہیں۔ ساتھ ہی اس مرحلہ میں راجستھان اور مدھیہ پردیش سے بھی اچھیں خبریں نہیں آ رہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز تجزیہ

لوک سبھا انتخاب کے لیے چوتھے دور کی ووٹنگ ختم ہونے کے ساتھ جو خبریں چاروں طرف سے آ رہی ہیں اس سے مرکز کی نریندر مودی حکومت کے لیے ایک بدنما تصویر ابھر کر سامنے آ رہی ہے۔ این ڈی اے کے لیے الیکشن کا چوتھا مرحلہ بے حد اہم تھا کیونکہ جن 71 سیٹوں پر 29 اپریل کو ووٹنگ ہوئی ان میں سے این ڈی اے نے 2014 میں 56 سیٹیں جیتی تھیں۔ اکیلے بی جے پی کی ان میں 45 سیٹیں تھیں، باقی اس کی معاون شیو سینا اور ایل جے پی کی تھیں۔

لیکن ووٹنگ کے مقامات سے آئی خبریں یہ اشارہ دیتی ہیں کہ ان سیٹوں پر بی جے پی کو زبردست جھٹکا لگ سکتا ہے۔ چوتھے دور میں اتر پردیش کی 13 سیٹیں بھی شامل تھیں جن میں سے صرف قنوج کو چھوڑ کر بقیہ 12 سیٹیں بی جے پی 2014 میں جیتی تھیں۔ لیکن اس بار ان 13 سیٹوں پر اس کے حصے بہت زیادہ کچھ آنے کے امکانات نہیں لگ رہے۔


اس کے علاوہ دوسرا بڑا جھٹکا این ڈی اے اور خاص طور سے بی جے پی کو مہاراشٹر سے لگنے کے اشارے مل رہے ہیں۔ مہاراشٹر میں 29 اپریل کو 17 سیٹوں پر ووٹنگ ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی مہاراشٹر کی سبھی سیٹوں کی ووٹنگ مکمل ہو گئی۔ ان سبھی سیٹوں کو 2014 میں این ڈی اے نے جیتا تھا۔ بی جے پی کے حصے میں 8 اور اس کی معاون شیو سینا کے حصے میں 9 سیٹیں آئی تھیں۔ لیکن اس بار انتخابی حلقوں سے آئی خبریں بتا رہی ہیں کہ کانگریس-این سی پی کا جوش اور راج ٹھاکرے کے ذریعہ عین انتخاب کے موقع پر پی ایم نریندر مودی کی طرح طرح سے قلعی کھولنے کا اثر ان سیٹوں پر پڑے گا۔

راج ٹھاکرے نے اپنے ویڈیو پیغامات کے ذریعہ جو انکشافات کیے اس کا اثر بی جے پی اور شیو سینا دونوں پر پڑنے کے آثار نظر آئے۔ انتخابی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ اس سے شیو سینا کو زیادہ نقصان ہونے کا امکان ہے۔ ایک تجزیہ نگار کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ اگر شیو سینا اپنے حصے کی 24 میں سے 6 سیٹیں بھی جیت جائے تو بڑی بات ہوگی۔


ان کے علاوہ راجستھان کی بھی 13 سیٹوں پر پیر (29 اپریل) کو ووٹنگ ہوئی۔ 2014 میں بی جے پی نے راجستھان کی سبھی 25 سیٹوں پر فتح حاصل کی تھ ی۔ لیکن ریاست میں ووٹروں کے رجحان سے لگتا ہے کہ اگر وہ ان 25 میں سے نصف سیٹیں بھی جیت پائے تو بڑی بات ہوگی۔ اسی طرح کے رجحان مدھیہ پردیش سے مل رہے ہیں جہاں بی جے پی نے 2014 میں 29 میں سے 27 سیٹیں جیتی تھیں۔ حالانکہ پیر کو مدھیہ پردیش کی صرف 6 سیٹوں پر الیکشن ہوا، لیکن انتخابی تجزیہ نگار مانتے ہیں کہ ان میں سے 5 پر بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اسی طرح بہار کی جن 5 سیٹوں پر پیر کو الیکشن ہوا ان میں سے بی جے پی نے 1 اور اس کی معاون ایل جے پی نے 2 سیٹیں جیتی تھیں۔ لیکن اس بار حالات بدلے ہوئے ہیں۔

مغربی بنگال سے آنے والی رپورٹس بھی کچھ ایسا ہی اشارہ دے رہی ہیں کہ بی جے پی اس بار آسنسول سیٹ بھی ایک بڑے فرق سے ترنمول کانگریس کے ہاتھوں ہار سکتی ہے۔ 2014 میں بی جے پی نے یہ سیٹ جیتی تھی۔ باقی جن 8 سیٹوں پر 29 اپریل کو ووٹنگ ہوئی، وہاں تو ویسے بھی بی جے پی کی کوئی گرفت ہے ہی نہیں۔


ایسے میں بی جے پی کے لیے سکون کی خبر صرف اڈیشہ سے مل سکتی ہے جہاں پیر کو 6 سیٹوں پر ووٹنگ تھی۔ لیکن 2014 میں ان سبھی سیٹوں پر نوین پٹنایک کی بی جے ڈی ن ے فتح حاصل کی تھی۔ اگر بی جے پی ان سیٹوں کو جیت بھی جاتی ہے تو ب ھی اس کے لیے 2019 کی راہ مشکل ہی ثابت ہو سکتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔