مہاتما گاندھی کی وجہ سے عالمی شہرت یافتہ مصور رضا پاکستان میں آباد نہیں ہوئے

محمود فاروقی نے کہا کہ تقسیم اور گاندھی جی کے قتل کا رضا صاحب کی زندگی پر گہرا اثر پڑا۔ ان کی بیوی پاکستان چلی گئی لیکن وہ گاندھی جی کی وجہ سے ہندوستان نہیں چھوڑ سکے۔

سید حیدر رضا، تصویر آئی اے این ای
سید حیدر رضا، تصویر آئی اے این ای
user

یو این آئی

نئی دہلی: عالمی شہرت یافتہ مصور سید حیدر رضا بابائے قوم مہاتما گاندھی کے قتل سے اس قدر متاثر ہوئے کہ وہ تقسیم کے بعد پاکستان نہیں گئے، جبکہ ان کی اہلیہ اور خاندان کے افراد وہیں آباد ہو گئے یہ قصہ مشہور داستان گو محمود فاروقی نے رضا کی صد سالہ پیدائش کے موقع پر اپنے شو میں سنایا تھا۔ انہوں نے مختصر طور پر پدم وبھوشن ایوارڈ یافتہ مصور سید حیدر رضا کو اپنی دلکش آواز اور دلکش انداز کے ذریعے زندہ کیا۔

فاروقی، جو گزشتہ 17 سالوں سے ملک بھر میں ہزاروں داستان گوئی شوز کر رہے ہیں، نے ہفتے کی شام انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں رضا صاحب کی جدوجہد زندگی کی کہانی اس طرح سنائی کہ جیسے رضا صاحب اسٹیج پر کھڑے محسوس ہوئے۔ منٹو سے لے کر پاک ہند تقسیم تک اپنی کہانیوں سے سامعین کے دل جیتنے والے فاروقی نے رضا صاحب کی ساری زندگی کے سفر کو لفظوں میں ڈھال کر ایک بار پھر لوگوں کے دل جیت لیے۔


دون اسکول اور سینٹ اسٹیفن کالج کے ہسٹری کے طالب علم فاروقی نے شو شروع کرنے سے پہلے بتایا کہ 17 سال قبل انہوں نے انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں داستان گوئی کا سفر شروع کیا تھا۔ اس طرح انہوں نے اس معدوم فن کو نہ صرف زندہ کیا بلکہ اسے ایک مقام تک پہنچایا۔

اردو کے نامور نقاد شمس الرحمن فاروقی مرحوم کے بھتیجے محمود فاروقی نے رضا صاحب کی پیدائش اور بچپن سے لے کر ممبئی میں زندگی کی کشمکش اور پھر پیرس میں سکونت اختیار کرنے اور بین الاقوامی سطح کے مصور بننے کی کہانی ہندی اردو فارسی فرانسیسی زبان میں پیش کی اور اسے اس طرح پیش کیا کہ لوگ مسحور ہو گئے۔ وید پرانوں کی آیات اور اردو کے عظیم شاعروں کی شاعری کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے رضا صاحب کو ایک سیکولر اور گنگا جمنی ثقافت میں رہنے والا شخص قرار دیا۔ رضا صاحب کی نرمدا ندی سے وابستگی کا بھی خصوصی ذکر کیا گیا۔


محمود فاروقی نے کہا کہ تقسیم اور گاندھی جی کے قتل کا رضا صاحب کی زندگی پر گہرا اثر پڑا۔ ان کی بیوی پاکستان چلی گئی لیکن وہ گاندھی جی کی وجہ سے ہندوستان نہیں چھوڑ سکے۔ روایتی لکھنوی لباس میں اسٹیج پر بیٹھ کر فاروقی نے رضا کی بلراج ساہنی، راجندر سنگھ بیدی، کیفی اعظمی، سردار جعفری حسین، گیتونڈے اکبر پدمسی وغیرہ کے ساتھ وابستگی کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ مارکس اور فرائیڈ کا ان کی زندگیوں پر کیا اثر پڑا۔

رضا فاؤنڈیشن کے منیجنگ ٹرسٹی اشوک باجپائی نے بتایا کہ رضا کی پینٹنگز کی نمائش دہلی اور ممبئی میں لگائی گئی ہے اور وڈودرا میں بھی منعقد کی جا رہی ہے۔ اگلے سال 22 فروری کو پیرس میں بھی ایک نمائش ہوگی۔ انہوں نے بتایا کہ یشودھرا ڈالمیا نے رضا صاحب کی سوانح عمری انگریزی میں لکھی۔ اس کا ہندی ترجمہ بھی آ گیا ہے اور اب اس کا بنگالی اور مراٹھی ترجمہ بھی آ رہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔