’صحافیوں کی مقدمہ لڑنے میں مدد کرنی ہوگی‘، ٹی این نائنن

ملک میں پریس کی آزادی پر لگاتار بڑھتے دباؤ اور مظالم کے خلاف مختلف میڈیا اداروں کو ایک ساتھ آنا ہوگا اور مل کر ایسے صحافیوں کو قانونی مدد دینی ہوگی جن کا سرکاری نظام کے دَم پر استحصال کیا جا رہا ہے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ایشلن میتھیو

’’ملک میں پریس کی آزادی پر لگاتار بڑھتے دباؤ اور مظالم کے خلاف مختلف میڈیا اداروں کو ایک ساتھ آنا ہوگا اور مل کر ایسے صحافیوں کو قانونی مدد دینی ہوگی جن کا سرکاری نظام کے دَم پر استحصال کیا جا رہا ہے۔‘‘ یہ خیال پریس کلب میں پیر (4 جولائی) کو ’میڈیا کی آزادی کی بڑھتی خلاف ورزی اور صحافیوں کی نجی آزادی پر حملے‘ عنوان سے ہوئی کانفرنس میں سینئر صحافی اور مدیر ٹی این نائنن نے پیش کیا۔

نائنن نے کہا کہ صرف بیان جاری کرنے اور ایک ساتھ آنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ ’’صحافیوں کی مقدمہ لڑنے میں مدد کرنی ہوگی کیونکہ بہت سے صحافیوں کے پاس قانونی مدد حاصل کرنے کے لیے پیسہ اور وسائل نہیں ہوتے اور وہ تنہا پڑ جاتے ہیں۔ بہت سے معاملوں میں ان کے ادارے بھی ان کا ساتھ نہیں دیتے اور اظہارِ رائے کی آزادی کی اس خلاف ورزی کی قیمت صحافیوں کے کنبوں کو بھگتنی پڑتی ہے۔‘‘


اس کانفرنس کا انعقاد پریس کلب نے ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا، انڈین ویمن پریس کور، پریس ایسو سی ایشن، دہلی شرمجیوی پترکار یونین، ڈیجی پب نیوز انڈیا فاؤنڈیشن اور ورکنگ نیوز کیمرہ مین ایسو سی ایشن کے ساتھ کیا تھا۔ نائنن نے بتایا کہ ’’ہمیں مختلف شہروں میں وکیلوں کا ایک ایسا نیٹورک بنانا ہوگا جو ضرورت پڑنے پر صحافیوں کی مدد کر سکیں، اس سے ملک بھر میں صحافیوں کی مدد ہوگی۔ یہ لڑائی دہلی سے بھی کہیں آگے ہے۔ اہم یہ ہے کہ اس معاملے میں فنڈ کا استعمال شفافیت کے ساتھ کیا جائے۔‘‘

بزنس اسٹینڈرڈ اخبار کے سابق مدیر نے کہا کہ ’’مزید اس میں کیا کچھ کیا جا سکتا ہے، صحافیوں پر اس پر غور کرنا چاہیے۔ مختلف طرح کے میڈیا، ویب سائٹس، اخبار، سوشل میڈیا اور ٹی وی کو ساتھ آنا چاہیے اور صحافیوں کی سیکورٹی اور نجی آزادی پر ایک ساتھ آنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ بھلے ہی کسی کا سیاسی جھکاؤ کسی بھی طرف ہو، پھر بھی ایسا ہونا چاہیے۔‘‘


پریس کلب کے سربراہ اوما کانت لکھیڑا نے کہا کہ آج پریس پر کئی طرح کے حملے ہو رہے ہیں اور میڈیا کو سماج کے لیے خطرے کی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اطلاعات کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ پریس کلب کے ذریعہ جاری بیان کے مطابق ’’حال کے دنوں میں ہمارے ساتھیوں پر مختلف طرح کی ایف آئی آر درج کی جا رہی ہیں۔ میڈیا دفتروں میں ای ڈی کے چھاپے مارے جا رہے ہیں، یہ سب پورے ملک میں صحافت کے مستقبل کے لیے بدشگونی ہیں۔ آلٹ نیوز کے شریک بانی پر درج معاملے تازہ مثال ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ آلٹ نیوز مختلف طرح کی فرضی خبروں کی قلعی کھولنے میں پیش پیش رہا ہے۔ آلٹ نیوز کے شریک بانی کی گرفتاری ہمارے نظریہ سے صرف جھوٹے الزامات اور بدلے پر مبنی ہے۔ جبکہ دوسری طرف درحقیقت ہیٹ اسپیچ دینے والے کھلے عام آزاد گھوم رہے ہیں۔‘‘

اوماکانت لکھیڑا کے بیان کو آگے بڑھاتے ہوئے ’دی وائر‘ کے مدیر سدھارتھ وردراجن نے کہا کہ ملک اس وقت میڈیا کی آزادی پر جارحانہ حملے کا سامنا کر رہا ہے اور اب یہ عروج کی طرف بڑھ رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’آنے والے وقت میں ہر قسم کے ناجائز اور غیر قانونی عمل کا استعمال بڑھنے کا اندیشہ ہے، محمد زبیر کے معاملے میں ہم ایسا دیکھ رہے ہیں۔‘‘ انھوں نے کہا کہ 2014 کے لوک سبھا انتخاب سے پہلے تک فرضی خبر کی تشہیر بہت چھوٹے سطح پر تھی جو اب ایک صنعت بن چکی ہے اور بے حد تیزی سے پھیل رہی ہے۔ زبیر کی گرفتاری دکھاتی ہے کہ اس حکومت کے ساتھ کیا دقت ہے، کیونکہ آلٹ نیوز فیکٹ چیکنگ جیسا ایک بے حد اہم کام کرتا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ میڈیا نے اس معاملے میں اپنے کردار سے منھ پھیر لیا ہے۔


وردراجن نے اس ایشو کو اٹھایا کہ زبیر کو پہلے تو مذہبی نفرت بڑھانے کی دفعہ 153اے اور مذہبی جذبات مجروح کرنے کے مقصد سے مذہبی مقام کو نقصان پہنچانے کی دفعہ 295اے کے تحت گرفتار کیا گیا۔ لیکن اس کے بعد ان کے خلاف دیگر دفعات بھی لگا دی گئیں۔ وہ بھی ایک ایسے ٹوئٹ کے لیے جو انھوں نے 2018 میں کیا تھا۔ وردراجن نے مزید کہا کہ یہ ایک پیٹرن ہے جس سے سامنے آتا ہے کہ حکومت صحافیوں اور خصوصاً مسلم صحافیوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ حالانکہ زبیر پر دفعہ 153اے اور دفعہ 295 نہیں لگائی جا سکتی کیونکہ سی آر پی سی کی دفعہ 468 میں سہولت ہے کہ زیادہ سے زیادہ تین سال کی سزا ان الزامات میں دی جا سکتی ہے اور نہ ہی عدالتیں اس معاملے کا تین سال کے بعد نوٹس لے سکتی ہیں۔ ایسے معاملوں میں نافذ ہونے والی حدود کا ایک قانون ہے۔

اس سلسلے میں بہار حکومت بنام ارنیش کمار کے 2014 کے کیس میں ایک ججمنٹ ہے، جس کے مطابق زبیر کو پہلے نوٹس دیا جانا چاہیے تھا، اور جیسا کہ ان کا کہنا ہے، یہ نوٹس زبیر کو نہیں دیا گیا۔ لیکن ریمانڈ آرڈر میں کہا گیا ہے کہ نوٹس دیا گیا تھا۔ وردراجن نے اس بات کو خاص طور سے سامنے رکھا کہ عدالت کے فیصلے سے پہلے ہی دہلی پولیس نے بیان جاری کیا کہ زبیر کی ضمانت کی عرضی خارج کر دی گئی ہے اور انھیں جیل بھیجا جا رہا ہے۔ انھوں نے سوال اٹھایا کہ آخر عدلیہ کے لیے یہ بڑا ایشو کیوں نہیں ہے؟ آخر کھلے عام عدالتی نظام کو دھومل کیا جا رہا ہے۔ کیا دہلی پولیس کے اس ڈی سی پی کے فون کی جانچ نہیں ہونی چاہیے جس نے یہ بیان دیا۔


کانفرنس میں ویمن پریس کور کی سربراہ شوبھنا جین نے کہا کہ ’’ہم میں اتحاد نہیں ہے۔ ہمیں اس معاملے میں سبھی کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا تبھی ایک پریشر گروپ بنایا جا سکتا ہے۔ ہمیں سوال اٹھانے کا حق ہے، لیکن ہمیں کوئی جواب نہیں ملتا ہے۔ ڈائیلاگ کی جگہ دنوں دن ختم ہوتی جا رہی ہے۔‘‘

پریس کونسل آف انڈیا کے رکن جئے شنکر گپتا نے کہا کہ صحافت اور صحافی دونوں کے لیے یہ بے حد فکر انگیز وقت ہے۔ انھوں نے کہا کہ زبیر کا جرم صرف اتنا تھا کہ انھوں نے حکومت کے ذریعہ پھیلا جا رہی فرضی خبر کی قلعی کھولی۔ انھوں نے کہا کہ ایک طرف زبیر کو جیل میں ڈال دیا گیا، وہیں نوپور شرما کو پولیس سیکورٹی ملی ہوئی ہے۔ جئے شنکر گپتا نے اس بات کو سامنے رکھا کہ جب علاقائی میڈیا اور ہندی کے صحافیوں کا استحصال ہوتا ہے تو صحافتی دنیا میں اتنا اتحاد نہیں دکھائی دیتا ہے۔ انھیں بھی ایسی ہی مدد کی ضرورت ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */