’گلا خراب ہوتا ہے تو ہو جائے، مستقبل خراب نہیں ہونے دیں گی‘ نعرےباز انقلابی خواتین

مظاہرین سے بلند آواز میں نعرے لگوانے والی ان لڑکیوں کا کہنا ہے کہ ’’افسوس کی بات یہ ہے ہم چاہے کتنے ہی زور سے نعرے بلند کریں، حکومت کچھ نہیں سن رہی ہے‘‘

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

آس محمد کیف

لکھنؤ / دیوبند / دہلی: شہریت ترمیمی قانون کے خلاف شاہین باغ کی طرز پر ملک بھر میں خواتین کے دھرنے و احتجاج جاری ہیں۔ تمام مظاہرین اور ان کی قیادت کرنے والی بیشتر خواتین ایسی ہیں جنہوں نے کبھی دھرنوں میں شرکت نہیں کی تھی، یہاں تک کہ یہ عوامی طور پر بھی زیادہ نہیں جاتی تھیں۔ لیکن آج یہ ملک اور دستور کی بقا کی خاطر نہ صرف سراپا احتجاج بنی ہوئی ہیں بلکہ زور و شور سے اپنی آواز بھی بلند کر رہی ہیں۔

سی اے اے مخالف دھرنوں کے دوران سب سے مشکل کام نعرے لگوانے کا ہوتا ہے اور اس کام کو متعدد نوجوان خواتین بخوبی انجام دے رہی ہیں۔ ان نعروں سے خواتین کی توانائی برقرار رہتی ہے اور کئی نعروں کو خوب پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔ مظاہروں کے دوران زوردار نعرے لگوا کر بہت سی خواتین نے تو اپنے گلے تک خراب کر لیے ہیں۔


’گلا خراب ہوتا ہے تو ہو جائے، مستقبل خراب نہیں ہونے دیں گی‘ نعرےباز انقلابی خواتین

شاہین باغ کی فاطمہ، لکھنؤ کی سیدہ ناصرہ اور وارثہ، حوض رانی کی حنا اعجاز میواتی اور دیوبند کی ارم عثمانی ایسی ہی خواتین ہیں جو خاتون مظاہرین کا جوش برقرار رکھنے کے لئے مسلسل نعرے لگواتی ہیں۔ لکھنؤ کے سب سے زیادہ مشہور نعرے یہ ہیں۔ ’نہیں کسی کے باپ کا، یہ ملک ہمارا آپ کا‘، ’بول ساتھی ہلہ بول، سی اے اے پر ہلہ بول‘ اور آزادی کا نعرہ تو ملک بھر میں ہر مظاہرہ کرنے والے کی زبان پر رہتا ہے۔


عائشہ امین اور ان کی ٹیم کی طرف سے پیش کیا جانے والے گیت ’نا نا نا‘ بھی یہاں کافی مقبول ہو رہا ہے۔ شاعر منور رانا کی نواسی وارثہ رانا بھی مظاہرہ میں سرگرم نظر آتی ہیں اور ان کی والدہ سمیہ رانا کے خلاف کئی مقدمات درج ہو چکے ہیں لیکن انہیں اس کی کوئی پروا نہیں ہے۔

سیدہ ناصرہ (23) نامی ایک اور لڑکی اسٹیج پر نعرے لگواتی اور خواتین میں جوش پیدا کرتی نظر آتی ہے۔ ناصرہ کہتی ہیں کہ سب سے مشکل کام ہوتا ہے کیونکہ نعرہ بلند کرنے میں بہت زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ لکھنؤ کی کئی خواتین کے نعرے لگانے کی وجہ سے گلے خراب ہو چکے ہیں۔ میرا بھی گلا خراب ہو گیا تھا، جو اب الحمد اللہ ٹھیک ہے۔ اللہ ہمیں ہمت دے رہا ہے۔‘‘


دیوبند کی ارم عثمانی (38) نے کہا، ’’میرے شوہر اور اہل خانہ نے تو مجھے نعرے باز ارم کا لقب دے دیا ہے۔ میں نے ٹھنڈا پانی پینا اور چکنائی والا کھانا لینا بند کر دیا ہے۔ تقریباً ہر روز مجھے اینٹی بائیوٹک لینی پڑتی ہے اور کبھی کبھی تو گلے سے آواز ہی نہیں نکلتی‘‘۔ انہوں نے مزید کہا، ’’اب کچھ اور خواتین نے بھی نعرے لگوانے کا کام شروع کر دیا ہے اس سے مجھے آرام مل گیا ہے۔ احتجاج میں اب بڑے نام والے چہرے بھی آنا شروع ہوگئے ہیں، پھر بھی مجھے اسٹیج کو چلانا ہوتا ہے۔‘‘

لکھنؤ کی وارثہ (22) کہتی ہیں، ’’میں نے پہلی بار جب آزادی کے نعرے لگوائے تو خواتین نے اعتراض کیا۔ تب ہمیں انھیں سمجھانا پڑا کہ آزاد ملک میں آزادی کا نعرہ لگانا غلط نہیں ہے اور ہم غربت، چھوا، چھوت اور ذات، پات سے آزادی مانگ رہے ہیں۔‘‘


حنا اعجاز میواتی (27) دہلی کے حوض رانی علاقہ میں جاری دھرنے پر بیٹھی خواتین سے بلند آواز میں نعرہ لگوانے کے لئے جانی جاتی ہیں۔ دہلی کی رہائشی حنا دو بچوں کی ماں ہیں۔ فی الحال، حنا کا گلا خراب چل رہا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’یہاں ہمارے بچوں کا مستقبل خراب ہونے کی راہ پر ہے، ایسے حالات میں گلے کی کسے پروا ہے!‘‘ انہوں نے کہا کہ ان کا گلا بھلے خراب ہو جائے لیکن وہ اپنے بچوں کا مستقبل خراب نہیں ہونے دیں گی۔

انہوں نے کہا ’’یہ افسوس کی بات ہے کہ ہم کتنے بھی بلند آواز میں نعرہ لگا لیں مگر حکومت کے کانوں تک آواز نہیں پہنچ رہی۔ پھر بھی ہم ہمت نہیں ہارنے والے۔‘‘


Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 22 Feb 2020, 7:30 PM