لاک ڈاؤن: خواتین کے خلاف گھریلو تشدد میں غیر معمولی اضافہ

پروفیسر وشوا کا کہنا ہے کہ کورونا وبا نے بہت سارے لوگوں کو متاثر کیا ہے اور خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ بہت ساری خواتین کی نوکریاں گئی ہیں اور گھروں میں ان پر کام کا بوجھ بڑھ گیا ہے۔

علامتی تصویر
علامتی تصویر
user

یو این آئی

سری نگر: جموں و کشمیر سمیت دنیا کے مختلف حصوں میں کورونا وائرس کی وبا کے پیش نظر جاری لاک ڈاؤن کے دوران خواتین کے خلاف گھریلو تشدد کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ درج ہوا ہے۔ مردوں کا روزگار کھو دینا، عورتوں پر کام کا بوجھ بڑھ جانا، چوبیسوں گھنٹے نگرانی میں رہنا اور شراب کے عادی مردوں کو شراب نہ ملنا اس کی بڑی وجوہات ہیں۔

یہ باتیں یونیورسٹی آف جموں کے شعبہ وومنز اسٹیڈیز کی پروفیسر وشوا رکھشا اور وومنز کالج ایم اے روڈ سری نگر کے شعبہ نفسیات کی سربراہ ڈاکٹر عرفت آرا خان نے محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ جموں وکشمیر کے خصوصی پروگرام 'سکون' کے دوران کہی ہیں۔ پروفیسر وشوا رکشا کا کہنا ہے کہ کورونا وبا نے بہت سارے لوگوں کو متاثر کیا ہے اور خواتین کی بات کی جائے تو وہ سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بہت ساری خواتین کی نوکریاں گئی ہیں اور گھروں میں ان پر کام کا بوجھ بڑھ گیا ہے کیونکہ بیشتر لوگ اپنے گھروں تک ہی محدود ہیں۔


موصوفہ کے مطابق خواتین کے خلاف تشدد میں کورونا لاک ڈائون کے دوران بہت اضافہ ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ "اکثر لوگوں کا ماننا ہے کہ خواتین اپنے گھروں میں محفوظ ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر خواتین کے ساتھ سب سے زیادہ تشدد کہیں پر ہوتا ہے تو وہ اس کا گھر ہوتا ہے۔ بھارت میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں لاک ڈائون کے دوران خواتین کے خلاف تشدد میں اضافہ درج کیا گیا ہے۔"

پروفیسر وشوا مزید کہتی ہیں کہ "وہ گھرانے جہاں مرد شراب کے عادی ہیں یا یومیہ اجرات پانے والے مزدور ہیں وہاں خواتین کے خلاف تشدد زیادہ ہوتا ہے۔ اکثر گھروں میں خواتین چوبیسوں گھنٹے زیر نگرانی رہیں جس کی وجہ سے بھی انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔" ان کا کہنا ہے کہ خواتین اور مردوں کے مساوی حقوق ہیں اور ہر خاتون کو عزت کی زندگی گزر بسر کرنے کا پورا حق ہے۔ بقول ان کے 'گھریلو تشدد کو شوہر اور بیوی کے درمیان پرائیویسی کا معاملہ سمجھنا صحیح نہیں ہے بلکہ یہ ایک بڑا سماجی مسئلہ ہے۔


موصوفہ تشدد کی شکار خواتین سے مخاطب ہو کر کہتی ہیں کہ "اگر کسی خاتون کے خلاف تشدد ہوتا ہے تو اسے یہ کسی کے ساتھ شیئر کرنا چاہیے۔ وہ اپنے پڑوس یا رشتہ داروں میں سے کسی کو بتا سکتی ہیں۔" وہ مزید کہتی ہیں کہ "ہمارے پاس قانون نافذ کرنے والے ادارے ہیں۔ گھریلو تشدد کی شکار خواتین وومنز پولیس اسٹیشنوں سے رجوع کرسکتی ہیں۔ خود اگر متاثرہ خاتون رجوع نہیں کرسکتی ہیں تو وہ خواتین کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی کارکنوں کی مدد حاصل کرسکتی ہیں۔"

وومنز کالج ایم اے روڈ سری نگر کی سربراہ ڈاکٹر عرفت آرا خان کے مطابق "گھریلو تشدد کے مرتکب ہونے والے مرد یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ بہت طاقتور ہیں۔ مجھ میں ہمت ہے۔ میں جو بولتا ہوں وہی صحیح ہے۔ آپ کو یہ چیز فالو کرنی ہے اور یہ مظلوم عورت تشدد کا سامنا کرتی رہتی ہے۔ وہ شرم اور ڈر کی وجہ سے کسی کو بتاتی بھی نہیں ہے۔" وہ لاک ڈاؤن کے دوران خواتین کے خلاف تشدد میں اضافے کی وجوہات پر کہتی ہیں کہ "لاک ڈاؤن کے دوران گھریلو تشدد کے واقعات میں بہت اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ خواتین ایک ہی جگہ محصور ہو کر رہ گئی ہیں۔ وہ گھروں میں ہی خود کو غیر محفوظ تصور کرتی ہیں۔ بے روزگاری بڑھ گئی تو مرد حضرات کے رویے میں جارحانہ پن آگیا۔ نتیجتاً گھریلو تشدد میں اضافہ ہوگیا۔"

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔