ڈاکٹر تقی عابدی، اردو کا نابغہ روزگارعاشق

تقی عابدی کی شخصیت فن اور ادبی خدمات پر ہندوستان اور پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں سے تعلق رکھنے والے کم از کم آٹھ اردو اسکالرز تحقیقی مقالے تحریر کرچکے ہیں۔

ڈاکٹر تقی عابدی
ڈاکٹر تقی عابدی
user

جمال عباس فہمی

ڈاکٹرتقی عابدی ان شخصیات میں ہیں جن کے شوق اور پیشے میں باہم ہم آہنگی نظر نہیں آتی۔ وہ انسانی امراض کے ڈاکٹر ہیں لیکن ادب ان کے رگ و ریشے میں رچا بسا ہے۔ رگ و ریشے میں گردش کرتا ہوا اردو ادب ہی تقی عابدی کو تحقیق و تنقید، تشریح و ترجمہ۔ تصنیف و تالیف، تدوین وترتیب، تجزیہ اور شعر گوئی میں مصروف کار رکھتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ وہ اپنے قلم کی گردش سے اردوادب کے دامن کو تقریباً 70 قیمتی کتابوں کے سرمایہ سے مالا مال کرچکے ہیں۔ ان کا رخش قلم ہے کہ بے تکان دوڑ رہا ہے۔ یہ تقی عابدی کیا ہیں اور انہوں نے کیسے کیسے ادبی معرکے سر کئے ہیں اس پر تفصیل سے بات کرنے سے پہلے تقی عابدی کی پیدائش، خاندان، تعلیم و تربیت اور پیشے کے بارے میں معلومات حاصل کرلینا زیادہ مناسب ہے۔

سید تقی حسن عابدی یکم مارچ 1952 کو دہلی میں سید سبط نبی عابدی کے یہاں پیدا ہوئے۔ تقی عابدی کے اجداد کا تعلق اتر پردیش میں امروہہ کے پاس آباد سادات بستی نوگانواں سے ہے۔ ان کا نسبی سلسلہ حضرت نظام الدین اولیا سے جاکر ملتا ہے۔ اس مناسبت سے خواجہ حسن ثانی نظامی مرحوم تقی عابدی کو اپنا رشتے دار کہتے تھے۔ تقی عابدی کے خاندان میں بے شمار علما گزرے ہیں جو اس وقت کے رائج علوم کے ماہر تھے۔ ان کے ایک جد نے ڈھائی سو برس پہلے 'حق الیقین' نام سے کتاب تحریر کی تھی جو تقی عابدی کے مخطوطات کے خزانے میں موجود ہے۔ تقی عابدی کے والد سید سبط نبی عابدی قانون کی پڑھائی کرکے دہلی میں جج ہو گئے اور دہلی سے ان کا تبادلہ حیدر آباد ہو گیا۔ اس طرح تقی عابدی دہلی سے حیدر آباد منتقل ہو گئے۔ انہوں نے حیدر آباد سے ایم بی بی ایس کیا۔ برطانیہ سے ایم ایس کیا۔ ایف سی اے پی امریکہ سے کیا یعنی وہ فیلو آف کالج آف امیریکن پیتھولاجسٹ بھی ہیں۔ انہوں نے ایف آر سی پی کنیڈا سے کیا ہے یعنی وہ فیلو آف رائل کالج آف فزیشینس بھی ہیں۔ تقی عابدی نے پیتھالاجی میں ایم ایس سی برطانیہ کی گلاسگو یونیورسٹی سے کیا ہے۔ وہ امریکہ کے بورڈ آف پیتھالوجی کے ڈپلومیٹ بھی ہیں۔ اس وقت تقی عابدی اونٹاریو کنیڈا کے اس کاربرو اسپتال سے بحیثیت فزیشین وابستہ ہیں۔


فارسی اہل زبان کی طرح بولتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طویل عرصہ انہوں نے بحیثیت ڈاکٹر ایران میں گزارا ہے اور باقاعدہ ایک معلم سے فارسی سیکھی ہے۔ انہوں نے فارسی شعرو ادب کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہے۔ ایران کے قیام کے دوران ہی ان کی شادی ایک ایرانی خاتون سے ہوئی۔ جو امور خانہ داری سنبھالنے کے ساتھ ساتھ تقی عابدی کی علمی اور ادبی کاوشوں میں معاون رہتی ہیں۔ تقی عابدی دو بیٹوں اور دو بیٹیوں کے باپ ہیں۔ تقی عابدی کے گھر کا ماحول خالص مذہبی، علمی اور ادبی تھا۔ والد شعر گوئی کا ذوق رکھتے تھے۔ بچپن سے ہی تقی عابدی کو کھیل کود سے زیادہ پڑھنے لکھنے کا شوق تھا۔ مزاج میں ادب نے بچپن سے ہی جگہ بنا لی تھی۔ اسکول کے زمانے سے ہی شعرو شاعری کا شوق پیدا ہو گیا تھا۔ شعر کہنے لگے تھے۔ موقع ملتے ہی شعرو سخن کی محفلوں میں پہنچ جاتے تھے۔ کالج کے زمانے میں بیت بازی کے مقابلوں میں حصہ لیتے تھے۔ سیکڑوں اشعار زبانی یاد تھے۔ کچھ اور سن بڑھا تو مضمون نگاری کرنے لگے۔ حیدر آباد کے معروف اردو روزنامہ 'سیاست' میں مضمون شائع ہونے لگے تو تصنیفی صلاحیتوں پرسیقل ہوتی چلی گئی اور مقبولیت بھی بڑھتی چلی گئی۔

اردو شعرو ادب اور درس و تدرس کی دنیا میں لاکھوں ایسے افراد ہیں جو کسی نہ کسی نوعیت سے اردو کی کمائی پر گزارہ کرتے ہیں۔ لیکن تقی عابدی شاید واحد ایسے اردو ادیب اور شاعر ہیں جو 'طب' کی کمائی کو 'اردو ادب' پر لٹاتے ہیں۔ کنیڈا کے ٹورنٹو میں تقی عابدی کی لائبریری کیا ہے اردو ادب کا عجائب خانہ ہے جہاں ہزاروں قیمتی اور نادر و نایاب مخطوطے اور قلمی نسخے محفوظ ہیں۔ ان قلمی نسخوں اور مخطوطوں کو تقی عابدی نے کثیر رقم خرچ کرکے حاصل کیا ہے۔ اگر تقی عابدی کو معلوم ہو جائے کہ دنیا کے کسی گوشے میں اردو ادب کا کوئی سرمایہ قلمی نسخے مخطوطے یا اور کسی شکل میں موجود ہے تو اپنی تمام تر مصروفیات چھوڑ کر وہ ادبی سرمایہ حاصل کرنے کے لئے نکل پڑتے ہیں۔ اور اسے طلب کردہ قیمت سے زیادہ ادا کرکے حاصل کرہی لیتے ہیں۔ تقی عابدی کے ادبی عجائب خانے میں ہزاروں مخطوطے جمع ہیں جن کی مالیت کروڑوں میں ہے۔


تقی عابدی تقریباً 70 کتابوں کی ترتیب، تدوین، تصنیف، تجزیہ اور ترجمہ کرچکے ہیں۔ تحقیق، تنقید اور تجزیہ پر انہیں خاص ملکہ حاصل ہے۔ علم کلام، علم بیان، صرف و نحو اور عروض کی بھی کما حقہ جان کاری رکھتے ہیں۔ تاریخ کے نہاں خانوں میں پوشیدہ قلمی اور ادبی فنکاروں کو تلاش کرکے انہیں منظر عام پر لاکر ادب میں ان کو ان کا جائز مقام و مرتبہ دلانا ان کا پسندیدہ کا م ہے۔ اردو ادب کی دنیا نے اگر کسی ادیب اور شاعر کی ناقدری کی اور ناقدین اور ترقی پسند تحریک کے علمبرداروں نے اردو کے کسی قلمکار کو اس کا جائز مقام و مرتبہ نہیں دیا تو یہ تقی عابدی کے لئے ناقابل برداشت ہوتا ہے۔ اور وہ اس قلمکار کی نگارشات کو منظر عام پر لاکر اسے اس کا جائز مرتبہ دلانے کی کامیاب سعی کرتے ہیں۔ ان کی تصنیف، تدوین اور تالیف کردہ متعدد کتابیں اس کا ثبوت ہیں۔ علامہ نجم آفندی ہوں یا فرید لکھنوی، تعشق لکھنوی ہوں یا انشا اللہ خاں انشا، تقی عابدی نے ان اہل قلم کو اپنے قلم کے ذریعے انصاف دلانے کی کوشش کی ہے۔ یہی نہیں بلکہ شعرا کی نگارشات کے وہ پہلو جو اب تک کسی وجہ سے اہل ذوق و بصیرت کی نظروں سے اوجھل رہے ان کو بھی منصہ شہود پر تقی عابدی لائے ہیں۔ غالب کا فارسی کلام ہو یا ان کی عرفانی اور مذہبی شاعری، مرزا دبیر کی مثنویاں ہوں یا ان کا غیر منقوط کلام، مرزا دبیر کی فارسی شاعری ہو یا نثری شاہکار 'ابواب المصائب، مولا علی کا بغیر الف کا خطبہ ہو یا ایران کے ماہر مقرر اور فلسفی شہید مرتضی مطہری کی 'شہید' کے عنوان سے اہم تقریر یا مسعود اختر جمال اور سعید احمد ناطق لکھنوی کی اردو کی مکمل اور جامع منظوم تاریخ 'اردو زباں ہماری' اور 'نظم اردو' ہو، میر انیس کے کلام کے محاسن ہوں یا علامہ اقبال کی شاعری کے عرفانی پہلو یا رشید لکھنوی کی رباعیات ہوں۔ تقی عابدی کی جسجو اور تحقیق نے پوشیدہ خزانوں سے اردو ادب کے دامن کو مالا مال کر دیا ہے۔

تقی عابدی کی نظر ادیبوں اور شعرا کی ان قلمی خدمات، خوبیوں اور کمالات تک پہنچ جاتی ہے جہاں آج تک اردو مصنفین اور ناقدین کی نظریں نہیں پہنچ سکی ہیں۔ تقی عابدی جب فیض احمد فیض پر قلم اٹھاتے ہیں تو 'فیض فہمی' اور 'فیض شناسی' جیسی تصنیفات وجود میں آتی ہیں، جو فیض کی شاعری کو پڑھنے کا الگ زاویہ مہیا کرتی ہیں۔ جب تقی عابدی علامہ نجم آفندی کی ناقدری دیکھ کر رنجیدہ ہوتے ہیں تو 'کائنات نجم' دو جلدوں میں مرتب کرتے ہیں ان جلدوں میں نجم آفندی کی حیات، فن، غیر مطبوعہ کلام اور مشاہیر اہل قلم کے علامہ کی ادبی خدمات کے حوالے سے مضامین شامل ہیں۔ تقی عابدی یہیں پر نہیں رکتے بلکہ علامہ نجم آفندی کی ادبی حیثیت تسلیم کرانے کے لئے ان کے کے ذریعے نظم کردہ نعتوں، سلاموں، منقبتوں، رباعیات، قطعات، مراثی، نوحوں، غزلوں اور ہندی نظموں کے مجموعات بھی منظر عام پر پیش کرکے ان کے ساتھ ہوئی نا انصافی کا ازالہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔


جب تقی عابدی یہ محسوس کرتے ہیں کہ شبلی نعمانی نے 'موازنہ انیس و دبیر' میں مرزا دبیر کے ساتھ سخت نا انصافی کی۔ شبلی نعمانی نے دبیر کے فن، حسب، نسب اور کلام پر بے رحمانہ حملے کئے تب وہ تحقیق و جستجو کے ساتھ مرزا دبیر کی شاعرانہ عظمت ثابت کرنے کا تہیہ کرلیتے ہیں۔ مرزا دبیر کا فارسی کلام، ان کا بے نقط کلام، ان کی مثنویات، ان کا نثری شاہکار 'ابواب المصائب اردو والوں کی دلبستگی اور آسودگی کے لئے پیش کرتے ہیں۔ مرزا دیبر پر تقی عابدی نے سات کتابیں تصنیف و تدوین کی ہیں۔ تقی عابدی کا تحقیق کے بعد یہ دعویٰ ہے کہ مرزا دبیر ایسا واحد شاعر ہے جس نے سب سے زیادہ اشعار، سب سے زیادہ رباعیات نظم کی ہیں اور دبیر نے ہی سب سے زیادہ الفاظ کا استعمال کیا ہے۔

جب تقی عابدی میر انیس پر لکھنے بیٹھتے ہیں تو ان کے کلام کے محاسن کا اس انداز سے جائزہ لیتے ہیں کہ ان سے پہلے انیس کے کلام کو کسی اہل نظر نے اس انداز سے دیکھا ہی نہیں تھا۔ تقی عابدی نے 'تجزیہ یاد گار مرثیہ' کے عنوان سے اپنی کتاب میں میر انیس کے صرف ایک مرثیہ' جب قطع کی مسافت شب آفتاب نے' کا اس کے محاسن کی بنیاد پر تجزیہ کیا تو یہ حیرت انگیز نتیجہ برامد کیا کہ اس مرثیہ میں میر انیس نے 596 محاورے استعمال کئے۔ 197 بندوں پر مشتمل اس مرثیہ کے ایک ایک بند کا علم بیان و معنیٰ کی روشنی میں انہوں نے تجزیہ کیا ہے۔ میرانیس کے اس مرثیہ کا تجزیہ کئی لحاظ سے کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر کس بند میں کل الفاظ کتنے ہیں۔ عربی کے کتنے ہیں فارسی کے کتنے ہیں۔ کل حروف کتنے ہیں۔ اس بند میں استعارات، تشبیہات، کنایات کیا ہیں اور کتنے ہیں۔ اس مرثیہ میں علم بیان و کلام کی خوبیوں کی تعداد 251 ہے اور علم بدیع کی صنعتوں کی تعداد 1282 ہے۔ یعنی انیس کے صرف ایک مرثیہ میں کلام کی خوبیوں اور صنعتوں کی مجموعی تعداد 2129 ہے۔ جب میرانیس کے ایک مرثیہ کی خوبیوں کا یہ حساب ہے تو ان کے دو سو مراثی، سیکڑوں سلاموں، رباعیات، قطعات اور قصائد کی لسانی خوبیوں کا اندازہ کیسے لگایا جاسکتا۔ تقی عابدی کا یہ کارنامہ بلا شبہ بڑے منفرد انداز کا ہے۔ تقی عابدی نے میر انیس کی رباعیات کا دیوان بھی مرتب کر دیا ہے۔ میر انیس اور مرزا دبیر پر جو قلمی کارنامہ تقی عابدی نے انجام دے دیا ہے اس کی نظیر اردو ادب کی تاریخ میں ناپید ہے۔ اس پر صرف عش عش ہی کیا جاسکتا ہے۔


میر انیس کے چھوٹے بھائی میر مہر علی انس کے گمنام پر پوتے سلطان صاحب فرید لکھنوی کے غیر مطبوعہ مراثی اور دیگر کلام کو بھی تقی عابدی تاریخ کے نہاں خانے سے نکال کر لانے میں کامیاب ہوگئے۔ فرید لکھنوی کے پندرہ مراثی کا مجموعہ 'اظہار حق' کے عنوان سے مرتب کرکے رثائی ادب کے سرمایہ میں اضافہ کیا، اس کا سہرا بھی تقی عابدی کے سر ہے۔ انشا اللہ خاں انشا کے ساتھ ادب کے ناقدوں نے جو ناروا سلوک کیا اور معاصرین کے ساتھ ان کے معرکوں کی آڑ میں ان کی شاعرانہ عظمت کو پس پشٹ ڈالا اس پر بھی تقی عابدی کو تکلیف ہوئی اور انہوں نے انشا کی حیات اور شعری کارناموں پر کتاب تصنیف کی۔

ٹورنٹو میں تقی عابدی کے گھر کی لائبریری نادر و نایاب قلمی نسخوں اور مخطوطوں کا عجائب خانہ ہے۔ اس علمی عجائب خانے میں دو ہزار کے قریب نادر مخطوطے محفوظ ہیں۔ تقی عابدی بہت پہلے مراثی کا بیش قیمت سرمایہ لکھنؤ سے کینیڈا منتقل کرچکے ہیں۔ ان کے علمی خزانے میں سن1880 میں چھپا میر تق میر کا دیوان بھی ہے۔ اسے منشی نول کشور نے چھاپا تھا۔ اردو کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ ماہ لقا چندا بائی کا سو برس پرانا دیوان بھی تقی عابدی کے خزانے کی زینت ہے۔ تقی عابدی کے نگار خانے میں ڈھائی سو برس پرانا وہ مرثیہ بھی ہے جو کسی مرثیہ گو نے طوائف ملکہ جان کے نام کردیا تھا۔ علامہ اقبال کی ایک قلمی تصویر بھی تقی عابدی کے عجائب خانے میں آویزاں ہے۔ تقی عابدی نے ایک کام یہ بھی کیا ہے کہ اپنی زندگی میں ہی اپنے اس علمی عجائب خانے کو کنیڈا کی ایک یونیورسٹی کے نام وقف کر دیا ہے۔ تقی عابدی کے بعد ان کا یہ نادر خزانہ یونیورسٹی کی ملکیت ہو جائے گا اور اردو کی آنے والی نسلوں کے تشنہ گان ادب کو سیراب کرتا رہے گا۔


ڈاکٹر تقی عابدی کو ان کی ادبی خدمات کے لئے نوازہ بھی خوب گیا ہے۔ انہیں ہندوستان، بنگلہ دیش، پاکستان، مشرق وسطیٰ، شمالی امریکہ اور یوروپ کی ادبی انجمنیں اور ادارے درجنوں باوقار انعامات سے نواز چکے ہیں۔ ہ ستمبر2011 سے حیدر آباد کی مولانا آزاد اردو یونیورسٹی کے اردو شعبہ کے وزیٹنگ فیلو ہیں۔ جموں یونیورسٹی میں 2007 میں ان کا وزیٹنگ پروفیسر کے طور تقرر ہوا۔ 2019 سے تقی عابدی لکھنؤ کی خواجہ معین الدین چشتی اردو، عربی، فارسی یونیورسٹی کے وزیٹنگ پروفیسر کے طور پر مقرر ہیں۔ راولپنڈی پاکستان سے شائع ہونے والے ادبی ماہ نامے 'چہار سو' نے 2009 میں تقی عابدی کی شخصیت اور ادبی کارناموں پر ایک خصوصی شمارہ شائع کیا اس میں تقی عابدی کی علمی اور ادبی خدمات پر مشاہیر اہل قلم کے ذریعے تحریر مضامین شامل ہیں۔ ممبئی سے شائع ہونے والا ادبی مجلہ 'شاعر' اور سرینگر سے شائع ہونے والا میگزین 'حکیم الامت' بھی تقی عابدی کی فن شخصیت اور ادبی خدمات پر خاص شمارے شائع کر چکا ہے۔

تقی عابدی کی شخصیت فن اور ادبی خدمات پر ہندوستان اور پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں سے تعلق رکھنے والے کم از کم آٹھ اردو اسکالرز تحقیقی مقالے تحریر کرچکے ہیں۔ تقی عابدی کے ادبی قلمی کارناموں کو منظوم انداز میں خراج تحسین بھی پیش کیا جا چکا ہے۔ 2007 میں 'فنکار حق شعار' کے عنوان سے ایک منفرد طرز کی کتاب منظر عام پر آئی۔ اس کتاب کے مصنف شاعر پروفیسر عبدالمنان طرزی ہیں۔ طرزی کی جدت طرازی یہ ہے کہ انہوں نے تقی عابدی کی اس وقت تک منظر عام پر آنے والی سولہ کتابوں پر تبصرہ اور تنقد بھی منظوم طریقے سے کی ہے اور تقی عابدی کی ادبی خدمات کو خراج تحسین بھی منظوم طور سے پیش کیا ہے۔ تقی عابدی کی لاثانی ادبی خدمات کا احاطہ کرنے کے لئے ایک مضمون کا دامن ناکافی ہے ان کی ایک ایک کتاب پر تبصرے اور تجزیہ کی خاطر کم از کم ایک ایک کتاب درکار ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔