بہنوئی کی ڈگری پر میڈیکل کالج میں انجینئر بن گیا ڈاکٹر، للت پور کی خبر سے لوگ حیران، انتظامیہ پر سوال
پولیس کے مطابق ابھینو پہلے ممبئی میں کسٹم ڈپارٹمنٹ میں کام کرتا تھا۔ اسے وہاں بدعنوانی کے معاملے میں گرفتار کیا گیا اور 16 ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔ جیل سے رہائی کے بعد اس نے فراڈ کرنا شروع کر دیا

اتر پردیش کے للت پور سے انتہائی چونکا دینے والا معاملہ سامنے آیا ہے۔ یہاں ایک انجینئر اپنے بہنوئی کی ڈگریاں استعمال کر کے سرکاری اسپتال میں ڈاکٹر بن کر نوکری کرتا ہوا پایا گیا ہے۔ سب سے زیادہ حیران کرنے والی بات یہ ہے کہ انتظامیہ کی ناک کے نیچے ملزم گزشتہ 3 سال سے میڈیکل کالج میں ماہرامراض قلب (کارڈیالوجسٹ) کے عہدے پر تعینات تھا۔ پولیس نے ملزم ابھینو سنگھ کو گرفتار کر لیا ہے۔ ابھینو کے بہنوئی امریکہ میں ہیں اور وہ خود ممبئی کسٹمزمیں تعینات رہا ہے۔
یہ پورا معاملہ صدر کوتوالی علاقے کے تحت میڈیکل کالج سے متعلق ہے۔ اس فراڈ کے انکشاف سے محکمہ صحت میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے ملزم کے خلاف مقدمہ درج کر کے تفتیش کے بعد اسے گرفتار کر لیا۔ اس سلسلے میں ایس پی محمد مشتاق نے کہا کہ ملزم ابھینو سنگھ اپنے بہنوئی ڈاکٹر راجیو گپتا کے نام کا استعمال کرکے گزشتہ 3 سالوں سے ڈسٹرکٹ میڈیکل کالج میں کارڈیالوجسٹ کے طور پر کام کر رہا تھا۔ ڈاکٹر راجیو گپتا اس وقت امریکہ میں مقیم ہیں۔ ملزم نے ان کے نام سے جعلی ڈگریاں، دستاویزات اور دیگر سرٹیفکیٹ بنا کرخود کو ماہر ڈاکٹر ظاہر کر کے نوکری حاصل کرلی۔
پولیس کی تحقیقات میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ ملزم ابھینو سنگھ دراصل ڈاکٹر نہیں بلکہ انجینئر ہے۔ اس نے منصوبہ بند طریقے سے اپنے بہنوئی کی شناخت کا استعمال کرتے ہوئے نہ صرف للت پور بلکہ اس سے پہلےمتھرا میں بھی ڈاکٹر راجیو گپتا کے نام سے فرضی ڈاکٹر کے طور پر کام کیا۔ اس انکشاف سے سوالات اٹھنے لگے ہیں کہ آخر بغیر کسی طبی اہلیت کے وہ کیسے اسپتالوں اور طبی اداروں میں عہدے حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
اتنا ہی نہیں ملزم کا مجرمانہ اور متنازعہ ریکارڈ بھی منظر عام پر آیا ہے۔ پولیس کے مطابق ابھینو سنگھ پہلے ممبئی میں کسٹم ڈپارٹمنٹ میں کام کرتا تھا۔ اسے وہاں بدعنوانی کے ایک معاملے میں گرفتار کیا گیا اور 16 ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔ جیل سے رہائی کے بعد اس نے فراڈ کرنا شروع کر دیا۔ پولیس سپرنٹنڈنٹ نے بتایا کہ ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور پورے معاملے کی گہرائی سے تفتیش کی جا رہی ہے۔ اس بات کی بھی تفتیش کی جارہی ہے کہ جعلی دستاویزات کس نے اور کیسے تیار کئے، کن عہدیداروں نے میڈیکل کالج میں تقرری کے وقت ان کی تصدیق کی اور اس پورے نیٹ ورک میں اور کون کون لوگ ملوث ہے۔
اس معاملے نے نظام پربھی سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایک شخص کو کارڈیالوجسٹ جیسے عہدے پر اصل دستاویزات کی تصدیق کے بغیر کیسے تعینات کردیا گیا؟ 3 سال تک مریضوں کا علاج کرنے والا شخص اگر ڈاکٹر ہی نہیں تھا تو اس دوران کتنی جانوں کو خطرہ لاحق ہوا ہوگا؟ فی الحال پولیس ملزم سے پوچھ گچھ کر رہی ہے اور کیس سے متعلق تمام دستاویزات کی چھان بین کی جا رہی ہے۔