کیا آپ مہر کی رقم میں اضافہ چاہتی ہیں؟ طلاقِ حسن پر اعتراض کرنے والی بے نظیر سے سپریم کورٹ کا سوال

عرضی پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ معاملہ تین طلاق جیسا نہیں ہے اور بادی النظر طلاق حسن میں خرابی نظر نہیں آتی، اگر عرضی گزار چاہے تو وہ خلع لے سکتی ہے

سپریم کورٹ، تصویر آئی اے این ایس
سپریم کورٹ، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: سپریم کورٹ کی جانب سے طلاق بدعت کو قابل سزا جرم قرار دئے جانے کے بعد اب ایک مسلم خاتون نے طلاقِ حسن پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے عرضی دائر کی ہے۔ عرضی پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے گزشتہ روز کہا کہ یہ معاملہ تین طلاق (طلاق بدعت) جیسا نہیں ہے اور بادی النظر طلاق حسن میں خرابی نظر نہیں آتی اور اگر عرضی گزار چاہے تو وہ خلع لے سکتی ہے اور عدالت عظمیٰ یہ نہیں چاہتی کہ کسی اور طرح کا ایجنڈا بنے۔

دراصل، غازی آباد سے تعلق رکھنے والی بے نظیر حنا نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کرتے ہوئے کہا ہے کہ طلاق حسن آئین کی دفعات 14، 15، 21 اور 25 کی خلاف ورزی کرتا ہے اور اس طریقہ سے مرد یکطرفہ طور پر طلاق دے سکتا ہے جبکہ خاتون کی مرضی کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا۔ عرضی گزار نے کہا کہ یہ طریقہ صرف اور صرف مردوں کو طلاق دینے کا حق دیتا ہے خواتین کو نہیں۔


خیال رہے کہ شریعت میں طلاق کے تین طریقوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان میں سے پہلا طلاق احسن ہے، جس کی صورت یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی کو ایک طلاق ایک ایسے طہر میں دے جس میں بیوی سے مجامعت (صحبت) نہ کی ہو اور عدت گذرنے تک اسے چھوڑ دے۔ جبکہ طلاق حسن، جس پر بے نظیر نے اعتراض ظاہر کیا ہے، اس کے مطابق مرد اپنی مدخولہ بیوی کو تین طہر میں تین طلاق دے۔ طلاق بدعت، جسے سپریم کورٹ کی قابل جرم سزا قرار دیا ہے، اس کے مطابق، مرد اپنی مدخولہ بیوی کو تین طلاق ایک ہی کلمہ میں دے یا ایک طہر میں تین طلاق دے۔

رپورٹ کے مطابق بے نظیر کو اپریل میں تین طلاق کا نوٹس موصول ہوا تھا، جس کے بعد انہوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور معاملے کی جلد سماعت کی درخواست کی لیکن معاملہ کی سماعت نہیں ہوئی۔ دریں اثنا بے نظیر کو مئی اور جون میں طلاق کا دوسرا نوٹس اور تیسرا نوٹس بھی موصول ہو گیا۔


معاملہ کی منگل کے روز سماعت کے دوران جسٹس سنجے کشن کول نے کہا کہ یہ ایک ہی کلمہ میں تین طلاق دینے کا معاملہ نہیں ہے۔ مسلم خواتین کو بھی خلع کے ذریعے طلاق کا حق حاصل ہے۔ اگر دو افراد ایک ساتھ رہنے سے خوش نہ ہوں تو ان کی طلاق ہو سکتی ہے۔ مسلم کمیونٹی کی خواتین کو بھی طلاق کا حق حاصل ہے اور عدالت اس کی اجازت بھی دیتی ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ اس پر کسی اور قسم کا ایجنڈا بن جائے۔

عدالت مزید پوچھا کہ اگر معاملہ مہر کی رقم کا ہے تو عدالت اس میں اضافہ کا حکم دے سکتی ہے۔ عدالت نے درخواست گزار سے پوچھا کہ اگر آپ کو مہر سے زیادہ معاوضہ دیا جائے تو کیا آپ باہمی رضامندی سے اس طرح طلاق لینا چاہیں گی؟ درخواست گزار کی جانب سے پنکی آنند نے جواب دینے کے لیے مزید وقت مانگا ہے۔ کیس کی اگلی سماعت 29 اگست کو ہوگی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔