ہندوستان کو دوسرا میانمار  بنانے کی کوشش نہ کی جائے :مولانا ارشد

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

سید خرم رضا

نئی دہلی: شہریت کے معاملے پر آسام میں پیدا ہوئی سنگین صورتحال پر سخت موقف اختیار کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے حکومت کو انتباہ کیا کہ وہ ہندوستان کو دوسرا میانمار بنانے کی کوشش نہ کریں ۔ آسام کی صورتحال کے تعلق سے عوام کو روشناس کرانے کے لئے دہلی ایکشن کمیٹی فار آسام (ڈی اے سی اے)نے دہلی میں ایک اجلاس منعقد کیا ۔اس سے قبل ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ آسام میں شہریت کا مدا سنگین شکل اختیار کرتا جا رہا ہے ۔ انہوں نے بتایا ایک طرف تو نیشنل رجسٹریشن سٹیزن شپ (این آر سی ) کا کام چل رہا ہے، دوسری طرف آسام ہائی کورٹ نے ایک ایسا فیصلہ دے دیا ہے جس کے بعد تقریبا29لاکھ خواتین کی شہریت ختم ہونے کا امکان ہے۔ انہوں نے بتایا کہ تعلیم کی کمی اور غربت کی وجہ سےمسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے کبھی پیدائشی سرٹیفیکیٹ نہیں لیا اور لڑکیوں کی شادی کے وقت وہاں کا پردھان جسے بورا کہتے ہیں وہ جو سرٹیفیکیٹ دیتا تھا وہ ہی اس لڑکی کی شہریت کا ثبوت تھا ، لیکن ہائی کورٹ نے شہریت کے لئے ایسے تمام سرٹیفیکیٹ کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے ۔ویسے ایسی خواتین کی کل تعداد 47 لاکھ ہے لیکن ان میں سے 17.40لاکھ افراد نے وہاں کی شہریت کے ثبوت دے دئے ہیں جس کے بعد متاثرہ خواتین کی تعداد اب 29لاکھ رہ گئی ہے۔ مولانا نے کہا کہ اگر ان 29لاکھ خواتین کے ساتھ دو بچے بھی وابستہ ہیں تو کم از کم80لاکھ افراد کی شہریت پر تلوار لٹک گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں اس کو دوسرے میانمار سے جوڑ کر اس لئے دیکھ رہا ہوں کیونکہ میانمار میں بھی 8 لاکھ افراد کوتمام عالمی دباؤ کے با وجود شہریت نہیں دی گئی تھی اور ان کو بنگلہ دیش منتقل کر دیا گیا ۔ آج اس معاملے نے سنگین شکل اختیار کر لی ہے اور ہمارے یہاں تو 80لاکھ افراد کی شہریت کا معاملہ ہے اور اگر ان کو شہریت نہیں ملی تو ان لوگوں کے ساتھ کیا کیا جائےگا، کون سے ملک میں بھیجا جائے گا اور کون سا ملک ان کو شہریت دے گا۔‘‘

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز

مولانا ارشد مدنی نے کہا اس مسئلہ کو مذہبی چشمے سے نہ دیکھا جائے یہ خواتین کسی بھی مذہب کی ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا اگرذمہ داران کی جانب سے یہ بیان دیا جائے کہ ہندو خواتین کو توشہریت دینے کے لئے سال 2014کی حد رکھی جائے اور مسلم خواتین کی شہریت پر سوال کھڑے کئے جائیں تو کیا اس معاملے کو مذہبی چشمے سے نہیں دیکھا جا رہا ہے۔

پورے معاملے پر روشنی ڈالتے ہوئے پروفیسر بروا نے ’قومی آواز‘ کو بتایا کہ آسام معاہدے کے تحت 25مارچ1971 تک جو لوگ وہاں آ گئے ہیں ان کو شہریت دی جائے گی مگر اب حکومت اس معاملے میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ آسام کے تمام لوگ این آر سی کو اپ ڈیٹ کرنے کے حامی ہیں لیکن بی جے پی حکومت طرح طرح سے اس میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے بتایا اس معاملے میں وزیر اعلی سربانند سونووال کو عدالت سے ایک مرتبہ تنبیح کی جا چکی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کی شہریت کے معاملے کا بھی کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے بلکہ یہ ایک خواتین کے حقوق کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈی اے سی اے کا مطالبہ ہے کہ این آر سی کے کام کاج میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے اور 25مارچ 1971کی شہریت کے لئے جو تاریخ طے کی گئی ہے اس میں چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے اور خواتین کو جو شادی کے وقت پردھان کے ذریعہ سرٹیفیکیٹ دیا جاتا تھا اس کو غیر قانونی نہ قرار دیا جائے۔ انہوں نے صاف کہا کہ معاملہ عدالت میں ہے اس لئے وہ وزیر اعظم یا دیگر کسی بھی رہنما سے ملاقات نہیں کریں گے۔

عوام کو آسام کی صورتحال سے روشناس کرانے کے لئے ڈی اے سی اے نے جو اجلاس منعقد کیا تھا اس میں سی پی ایم کے سیتارام یچوری اور سواراج ابھیان کے یوگیندر یادو نے بھی شرکت کی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 13 Nov 2017, 7:47 PM