طلاق ثلاثہ آرڈیننس سے مطلقہ خواتین کے ساتھ ناانصافی کا خطرہ: محمود مدنی

پروفیسر طاہر محمود کا کہنا ہے کہ بیوی کو غیرقانونی طریقے سے چھوڑ دینے کا رواج معاشرے کے ہر طبقے میں موجود ہے اور اسے جرم قرار نہیں دیا گیا۔ طلاق ثلاثہ کی بدعت بھی اسی طرح کا ایک رواج ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

نئی دہلی: جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے طلاق ثلاثہ سے متعلق آرڈ یننس پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے شریعت میں مداخلت سے تعبیر کیا ہے۔ مولانا مدنی نے جاری ایک ریلیز میں کہا کہ دستور ہند میں دیے گئے حقوق کے تحت مسلمانوں کے مذہبی اور عائلی معاملات میں عدالت یا پارلیامنٹ کو مداخلت کا ہر گز حق نہیں ہے ، لہذا ایسا کوئی بھی قانون یا آرڈیننس جس سے شریعت میں مداخلت ہو تی ہے،وہ مسلمانوں کے لیے ہرگز قابل عمل نہیں ہو گا اور مسلمان بہر صورت شریعت پر عمل کرنا اپنے اوپر فرض سمجھتے ہیں اور سمجھتے رہیں گے۔

مولانا مدنی نے آرڈیننس کو اپنی نوعیت کے اعتبار سے متضاد قراردیتے ہوئے کہا کہ اس سے مسلم مطلقہ خواتین کے ساتھ انصاف نہیں بلکہ سخت نا انصافی کا خطرہ ہے ۔اس کے تحت اس کاقوی امکا ن ہے کہ مطلقہ خواتین ہمیشہ کے لیے معلق ہو جائیں اور ان کے لیے دوبارہ نکاح اور از سرنو زندگی شروع کرنے کا ر استہ یکسر منقطع ہو جائے ۔یہ نہایت ہی حیرت کی بات ہے کہ محترم وزیر قانون روی شنکر پرشاد نے دوسالوں میں طلاق کے قومی سطح پر201واقعات کا حوالہ دے کر آرڈیننس کو’ دستوری ایمرجنسی‘ بتایا ہے۔واقعہ چاہے ایک ہی کیوں نہ ہو افسوس ناک ہے، مگر سولہ کروڑ کی آبادی والی کمیونٹی میں سال میں سو واقعات کا تناسب ہرگز دستوری ایمرجنسی کے دائرے میں نہیں آتا ۔

یہ بھی پڑھیں... طلاق ثلاثہ سے کہیں زیادہ اہم مسائل ملک کے سامنے ہیں

انہوں نے الزام لگایا حقیقت تو یہ ہے کہ سرکار کا یہ رویہ پارلیامنٹری پروسیس کی تذلیل ، ہٹ دھرمی، انصاف و رائے عامہ کو طاقت کے ذریعہ روندنے کے مترادف ہے جو کسی بھی جمہوریت کے لیے باعث شرم ہے۔ یہ مرکزی سرکار کی آمریت کی واضح مثال ہے کہ جس قوم کے لیے یہ قانون بنایا گیاہے، اس کے نمائندوں سے کوئی مشورہ نہیں کیا گیا ، نیز شریعت کے ماہرین اداروں اور تنظیموں نے اس مسئلے کے حل کے لیے جو تجاویز پیش کیں ،انھیں یکسر نظر انداز کردیا گیا۔

دوسری طرف قومی اقلیتی کمیشن کے سابق چیرمین اور لا کمیشن آف انڈیا کے سابق رکن پروفیسر طاہر محمود کا کہنا ہے کہ حکومت کامجوّزہ طلاق آرڈیننس طلاق سے متعلق سپریم کورٹ کی معروف فکر اور متعدد فیصلوں سے متصادم ہے۔ یواین آئی سے بات چیت کے دوران انھوں نے واضح کیا کہ مقدمۂ شمیم آرا سمیت اپنے کئی حالیہ فیصلوں میں عدالت نے بار بار طے کیا کہ جو طلاق صحیح قرآنی طریقے کے خلاف دی گئی ہو وہ عدالتوں میں تسلیم نہیں کی جائے گی اور پھر سال گزشتہ سائرہ بانو کے کیس میں ایک ساتھ دی گئی تین طلاقوں کے غیر مؤثر ہونے کا حکم لگایا، لیکن اس نے طلاق کے کسی معاملے کو کسی قسم کے تعزیری قانون کے تحت لانے کا کبھی کوئی اشارہ تک نہیں دیا۔

مقدمۂ سائرہ بانو کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ چیف جسٹس کیہر اور جج عبدالنذیر کے اقلیتی فیصلے میں حکومت سے صاف طورپر کہا گیا تھاکہ طلاق ثلاثہ کیلئے مسلم ممالک میں جو قانون سازی ہوئی ہے اسی طرزپر ہمارے یہاں بھی قانون بنایا جائے۔ فیصلے میں ان بیرونی قوانین کی پوری تفصیل دی گئی ہے جنکے تحت ایک ساتھ دی گئی تین طلاقوں کے صرف ایک واحد رجعی طلاق کے مساوی سمجھے جانے کا حکم لگایا گیاہے اسے جرم مان کر مردوں کو اس کیلئے جیل بھیجنے کا کوئی قانون کہیں نہیں بنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں... نہ طلاق ثلاثہ صحیح اور نہ ہی حکومت کا آرڈیننس: ظفرالاسلام خان

پروفیسر طاہر محمودنے مزید کہا کہ بیوی کو غیرقانونی طریقے سے چھوڑ دینے کا رواج معاشرے کے ہر طبقے میں موجود ہے جس کیلئے مختلف فرقوں کیلئے نافذ عائلی قوانین میں سے کسی کے تحت اسے جرم نہیں قرار دیا گیا ہے، طلاق ثلاثہ کی بدعت بھی اسی طرح کا ایک رواج ہے جس پر قانونی پابندی لگنی چاہئیے لیکن اسے جرم قرار دینا مسلم خاندانوں کیلئے مزید مسائل پیداکرے گا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ’’ طلاق ثلاثہ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آئے ایک سال سے زیادہ ہوچکا اور اس پر تعزیری قانون بنانے کا حکومت کا اراد ہ بھی مہینوں سے سب کو معلوم ہے اگر اس عرصے میں دینی حلقوں کی طرف سے مسلم ممالک کی طرز پراس مسئلے کا حل نکال لیا جاتا تو آج یہ نوبت نہیں آتی‘‘۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 20 Sep 2018, 8:05 PM