طلاق یافتہ مسلم خاتون جہیز اور تحفے واپس لینے کی حق دار، سپریم کورٹ کا فیصلہ
سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ طلاق یافتہ مسلم خاتون کو، نکاح کے وقت دئے گئے 7 لاکھ روپے اور 30 گرام سونا واپس لینے کا مکمل حق ہے۔ عدالت نے اسے خواتین کی مساوات، وقار اور مالی تحفظ قرار دیا

سپریم کورٹ نے منگل کو واضح اور اہم فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ طلاق یافتہ مسلم خاتون کو نکاح کے موقع پر شوہر کو دیا گیا جہیز اور دیگر تحائف واپس لینے کا قانونی حق حاصل ہے۔ عدالت نے کہا کہ مسلم ویمن (پروٹیکشن آف رائٹس آن ڈائیوؤرس) ایکٹ، 1986 کا مقصد طلاق یافتہ خواتین کی عزت و مالی حفاظت کو یقینی بنانا ہے، اس لیے نکاح کے وقت دیے گئے جہیز کا تعلق براہِ راست خاتون کی مالی سلامتی اور وقار سے ہے۔
یہ فیصلہ روشن آرا بیگم کے اس قائم کردہ دعوے کے تناظر میں آیا، جنہوں نے اپنے پہلے خاوند سے نکاح کے وقت اپنے والد کی طرف سے دیے گئے 7 لاکھ روپے اور 30 گرام سونے کی واپسی کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ رقم اور زیورات نکاح نامے میں درج تھے۔ اگرچہ کلکتہ ہائی کورٹ نے پہلے قاضی اور خاتون کے والد کے بیانات میں تضاد کا حوالہ دے کر ان کا دعویٰ مسترد کر دیا تھا مگر سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے اس نتیجے کو برقرار نہیں رکھا۔
عدالت نے کہا کہ قوانین اور ان کی تشریح آئین کے بنیادی اصولوں مساوات، وقار اور فرد کی آزادی کے مطابق ہونی چاہیے۔ سپریم کورٹ نے روشن آرا کے سابق شوہر کو حکم دیا کہ وہ 7 لاکھ روپے اور 30 گرام سونے کے مساوی رقم براہِ راست خاتون کے بینک اکاؤنٹ میں جمع کرائے۔ اگر وہ اس حکم کی تعمیل میں تاخیر کرے تو عدالت نے 9 فیصد سالانہ سود عائد کرنے اور تعمیل کا حلفی بیان جمع کروانے کا پابند کیا۔
فیصلے میں عدالت نے تاکید کی کہ قانون کی تشریح کرتے وقت سماجی حقیقت، خواتین کے تجربات اور ان کی عزت و معاشی خودمختاری کو فوقیت دی جائے تاکہ قانون صرف الفاظ تک محدود نہ رہے بلکہ عملی تحفظ فراہم کرے۔