دہلی: جامع مسجد کے لذیذ کھانوں پر پہلے ’فسادات‘ اب ’کورونا‘ کا سایہ

جامع مسجد علاقے میں مٹھائی کی ایک چھوٹی سی لیکن مشہور دکان چلانے والے محمد شان کو اب اپنا ربڑی کا پورا اسٹاک فروخت کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پہلے یہی اسٹاک چند گھنٹوں میں ختم ہو جاتا تھا۔

تصویر  آئی اے این ایس
تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: پرانی دہلی میں جامع مسجد کے آس پاس کا علاقہ مزیدار کھانوں کے لئے ملک بھر میں مشہور ہے۔ یہاں مٹن نہاری، بریانی اور بھیجا فرائی کی خوشبو سے ہی بہترین کھانوں کے شوقین کھنچے چلے آتے ہیں۔ لیکن ان دنوں یہاں کی صورتحال بدل گئی ہے۔ دکانداروں کا کہنا ہے کہ اب یہاں پہلے جیسی رونق نہیں رہ گئی اور دھندے چوپٹ ہو چکے ہیں۔

خبر رساں ایجنسی آئی اے این ایس نے جب بازار پر چھائی مندی کی وجوہات کے بارے میں مقامی دکانداروں سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ سی اے اے مخالف مظاہرے کے وقت سے ہی یہاں کام کم ہو گیا تھا اور رہی سہی کسر کورونا وائرس نے پوری کر دی۔ دکانداروں نے کہا کہ جیسے جیسے کورونا وائرس کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے، گاہکوں کی آمد و رفت کم سے کم ہوتی گئی ہے۔


جامع مسجد علاقے میں مٹھائی کی ایک چھوٹی سی لیکن مشہور دکان چلانے والے محمد شان کو اپنا ربڑی کا پورا اسٹاک فروخت کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پہلے یہی اسٹاک چند گھنٹوں میں ختم ہو جاتا تھا۔ شان نے دعوی کرتے ہوئے کہا ’’ہماری مٹھایاں 1939 میں وجود میں آئیں۔ میں نے اپنے پورے کیریئر میں اتنا کم کاروبار کبھی نہیں دیکھا۔ امسال اب تک کی سب سے زیادہ بے رنگ ہولی رہی ہے۔‘‘


اگرچہ یہاں سڑکوں پر لوگوں کی تعداد اب بھی کافی نظر آ رہی ہے، اس کے باوجود کاروبار بری طرح متاثر ہو چکا ہے۔ شان نے کورونا کے پھیلنے سے پیدا ہونے والے خوف و ہراس کو اس کا ذمہ دار ضرور قرار دیا ہے تاہم انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ شمال مشرقی دہلی میں سی اے اے مخالف مظاہرے اور تشدد کے بعد کافی لوگ اس اقلیتی اکثریتی علاقے میں آنے سے گریز کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’فسادات کی وجہ سے پہلے سے ہی جدوجہد کر رہے کاروبار کو کورونا نے بالکل تباہ کر دیا ہے۔‘‘

ایک مشہور مغلائی کھانوں کا ڈھابہ چلانے والے باورچی نے آئی اے این ایس کو بتایا، ’’لوگ کورونا کے خوف کی وجہ سے گوشت کھانے میں خوف محسوس کر رہے ہیں۔ مٹن تاحال فروخت ہو رہا ہے لیکن چکن کے کھانوں کی طلب میں بھاری گراوٹ آ گئی ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 19 Mar 2020, 4:11 PM