’ہم اِدھر جائیں یا اُدھر جائیں، بڑی مشکل میں ہیں کدھر جائیں‘، کشمکش میں ہیں اجیت پوار گروپ کے اراکین اسمبلی!

مہاراشٹر اسمبلی میں ان دنوں عجیب و غریب حالت بنی ہوئی ہے، شرد پوار دوری بنا کر الگ گروپ بنانے والے اجیت پوار گروپ کے کئی اراکین اسمبلی اس کشمکش میں ہیں کہ آخر کدھر جائیں۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر آئی اےاین ایس</p></div>

تصویر آئی اےاین ایس

user

سجاتا آنندن

ایسا لگتا ہے کہ سیاست میں ’آیا رام، گیا رام‘ کہاوت کو مہاراشٹر کی نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) نے ایک نئی شکل دے دی ہے۔ اس کہاوت کا ہندوستانی سیاست میں پہلی بار استعمال 1960 کی دہائی میں اس وقت ہوا تھا جب ہریانہ کے ’رام‘ نامی رکن اسمبلی نے ایک ہی دن میں تین بار پارٹی بدلی تھی۔ اس کے بعد 1980 کی دہائی میں ’دَل بدل مخالف قانون‘ پاس کیا گیا تاکہ ’آیا رام، گیا رام‘ پر روک لگ سکے۔

اس قانون کے آنے کے بعد کسی بھی رکن اسمبلی یا اراکین اسمبلی کو پارٹی سے الگ ہو کر کسی دیگر پارٹی میں شامل ہونے یا ضم ہونے کے لیے اپنی پارٹی کے دو تہائی اراکین اسمبلی کی حمایت چاہیے ہوگی۔ جبکہ کسی ایک رکن اسمبلی کو اگر پارٹی کو ’دل بدل‘ کرنا ہے تو اسے اپنی سیٹ سے استعفیٰ دینا ہوگا جہاں سے وہ اپنی اصل پارٹی کے انتخابی نشان پر انتخاب جیت کر آیا تھا، اور اسے دوبارہ انتخاب لڑنا ہوگا۔ دوبارہ انتخاب جیتنے کو لے کر بیشتر پراعتماد نہیں ہوتے ہیں، ایسے میں اکثر وہ اپنی پارٹی کے اراکین اسمبلی کی تعداد کی بنیاد پر دَل بدل کرتے ہیں۔


یہی وجہ تھی کہ جب ایکناتھ شندے نے شیوسینا میں گزشتہ سال بغاوت کی تو انھوں نے اس بات کا دھیان رکھا کہ ان کے ساتھ شیوسینا کے 56 میں سے 40 اراکین اسمبلی کی حمایت ہو، تاکہ وہ ضرورت پڑنے پر دو تہائی والے اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہ پائے جائیں۔

اور اب، ایک سال بعد جب شرد پوار کے بھتیجے اجیت پوار نے این سی پی سے رشتہ توڑا ہے، تو ابھی تک یہ طے نہیں ہو پایا ہے کہ ان کے ساتھ این سی پی کے دو تہائی اراکین اسمبلی کی حمایت ہے یا نہیں۔ جب 2 جولائی کو انھوں نے این سی پی میں الگ گروپ بنایا تو ان کے پاس پارٹی کے 53 میں سے 32 اراکین اسمبلی کی حمایت تھی۔ حالانکہ دو ہفتہ بعد ہی ان کی دقتیں شروع ہو گئیں جب ان 32 میں سے 15 اراکین اسمبلی مہاراشٹر اسمبلی کے مانسون اجلاس کے دوران برسراقتدار طبقہ کو چھوڑ کر اپوزیشن کے لیے مقرر سیٹوں پر جا کر بیٹھ گئے۔ اس کے علاوہ شرد پوار خیمہ کے بیشتر اراکین اسمبلی سمیت کم از کم 27 اراکین اسمبلی ایوان سے غیر حاضر بھی رہے۔


جیسے جیسے مانسون اجلاس آگے بڑھا، مہاراشٹر اسمبلی میں الگ ہی نظارہ دیکھنے کو ملا۔ اجیت پوار خیمہ کے کئی اراکین اسمبلی کبھی برسراقتدار طبقہ کی طرف بیٹھے نظر آتے، تو کبھی اپوزیشن کی طرف۔ غالباً انھیں خود ابھی تک کوئی بھروسہ نہیں ہے کہ آخر وہ کس طرف ہیں۔ اس طرح اجیت پوار خیمہ میں اراکین اسمبلی کی مجموعی تعداد کسی بھی وقت 25 سے زیادہ نہیں پائی، کیونکہ بیشتر تو ایوان سے غائب ہی رہے۔

اس بارے میں اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور شرد پوار خیمہ کے چیف وہپ جتیندر اوہاڈ نے اسمبلی اسپیکر کو خط بھی لکھا کہ صرف انہی اراکین اسمبلی کو اصل این سی پی کے باغی یعنی اجیت پوار گروپ کا مانا جائے جنھوں نے حکومت میں وزارتی عہدہ کا حلف لیا ہے، باقی کو حقیقی این سی پی کا ہی حصہ مانا جائے۔ دھیان رہے کہ شرد پوار نے عوام کے درمیان اپنی مقبولیت کے دم پر اگلے ہی دن بیان جاری کیا تھا کہ انھیں امید ہے کہ کچھ دن بعد ہی اجیت پوار کے ساتھ گئے بیشتر اراکین اسمبلی ان کے پاس واپس لوٹ آئیں گے اور اگر وہ واپس نہیں آئے تو وہ جانتے ہیں کہ ان کا کیا کرنا ہے۔ اسے ایک طرح سے پوار کی طرف سے دھمکی کے طور پر بھی دیکھا گیا تھا۔


بتانا لازمی ہے کہ این سی پی کے بیشتر اراکین اسمبلی کاروباری ہیں اور شگر کوآپریٹو، ڈیری فارمنگ اور کوآپریٹو بینکوں وغیرہ کے کاروبار میں ہیں۔ ان سبھی شعبوں میں شرد پوار کا زبردست اثر ہے۔ اپوزیشن میں ہونے کے باوجود ان شعبوں میں شرد پوار کی طوطی بولتی ہے اور بی جے پی حکومت میں ہونے کے باوجود شرد پوار کی اس بالادستی کو توڑنے میں ناکام رہی ہے۔ ایسے میں یہ سارے اراکین اسمبلی اپنی سیاسی خواہشات کو لے کر بھی پس و پیش میں ہیں، کیونکہ اس سے ان کے کاروبار پر گہرا اثر پڑنے کا اندیشہ ہے۔ یہاں غور کرنے والی بات یہ ہے کہ سارے دھندے یا کاروبار اکیلے دم پر نہیں چلتے، ان میں کسانوں کی شراکت داری بھی بڑے پیمانے پر ہوتی ہے، اور وہی اپنے کوآپریٹو ادارے کا سربراہ منتخب کرتے ہیں جو عام طور پر مقامی رکن اسمبلی یا رکن پارلیمنٹ ہوتا ہے۔

اس لیے ایک ہی دن میں کئی بار کرسیوں کی اَدلا بدلی ہو رہی ہے۔ ایسے ہی ایک رکن اسمبلی ہیں مکرند پاٹل۔ انھوں نے اکیلے ایک ہی دن میں کم از کم تین بار اسمبلی میں اپنی سیٹ بدلی۔ پہلے وہ اجیت پوار خیمہ کے ساتھ برسراقتدار طبقہ کی طرف بیٹھے، پھر درمیان میں اپوزیشن کی طرف چلے گئے، اور پھر کچھ دیر بعد برسراقتدار طبقہ کی طرف آ کر بیٹھ گئے۔ حالانکہ ابھی تک اسمبلی اسپیکر نے اس سلسلے میں اپنا فیصلہ نہیں سنایا ہے اور نہ ہی اجیت پوار گروپ کو اصل این سی پی کی شکل میں منظوری ملی ہے۔ ایسے مین اس سلسلے میں کوئی شفافیت نہیں ہے کہ کون کہاں بیٹھے۔ اسمبلی کے اصول موٹے طور پر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ برسراقتدار طبقہ ایک ساتھ بیٹھتا ہے اور اس کے ٹھیک سامنے اپوزیشن بیٹھتا ہے۔ پارلیمنٹ میں بھی ایسا ہی انتظام ہے۔


مجموعی طور پر دیکھا جائے تو حالات شیوسینا کے دو گروپ سے کافی مختلف ہے۔ شیوسینا کی ٹوٹ میں تو ادھو ٹھاکرے نے معاملے کو سپریم کورٹ پہنچایا تھا اور 40 باغی اراکین اسمبلی میں سے 18 کو نااہل قرار دینے کی اپیل کی تھی۔ سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں اسمبلی اسپیکر کو فیصلہ لینے کی ہدایت دی ہے، حالانکہ اسپیکر نے ابھی تک اس پر فیصلہ نہیں سنایا ہے۔ لیکن این سی پی کے معاملے میں شرد پوار الگ قسم کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ انھوں نے اس کے لیے قانونی راستہ منتخب نہیں کیا ہے اور ایک طرح سے معاملے کو اراکین اسمبلی کی ضمیر کی آواز پر چھوڑ دیا ہے۔ یہ ایک طرح کی سرد دھمکی بھی ہے، اور ایک خطرناک خاموشی بھی۔

یہی خاموشی اجیت پوار کو فکرمند کر رہی ہے، کیونکہ وزارتی عہدہ کا حلف لینے والے 9 اراکین اسمبلی کے علاوہ باقی کے سارے اراکین اسمبلی کشمکش میں ہیں کہ آخر جائیں تو کہاں جائیں۔ گزشتہ ہفتہ ان کی شرد پوار کے ساتھ ملاقات سے یہی قیاس آرائی کی گئی کہ شاید انھوں نے شرد پوار کو منانے کی کوشش کی، لیکن شرد پوار نے ٹھنڈے دماغ سے اجیت اور دیگر اراکین اسمبلی کی باتیں سنیں، لیکن جواب کچھ نہیں دیا۔


یہی وہ وجہ ہے کہ اجیت خیمہ کے اراکین اسمبلی ایوان میں ہی برسراقتدار طبقہ اور اپوزیشن کے درمیان ’آیا رام، گیا رام‘ بنے ہوئے ہیں۔ یہ ایسی حالت ہے جو ہندوستانی سیاست کی تاریخ میں شاید ہی اس سے پہلے بنی ہو۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔