جانوروں کو نچانے والی ’مداری قوم‘، قسمت کے اشاروں پر ناچنے کو مجبور

مداری قوم جو کل تک مجمع لگاکر اور ’نظر باندھ‘ کر اپنی روزی روٹی کماتی تھی وہ اب جادوئی انگوٹھیاں اور نگوں کو بیچ کر پیٹ پالنے کے لئے مجبور ہے۔

تصویر قومی آواز / آس محمد
تصویر قومی آواز / آس محمد
user

آس محمد کیف

دیول (بجنور): مدھیہ پردیش اسمبلی انتخابات سے قبل مداری لفظ کافی زیر بحث ہے۔ دراصل چناوی تشہیر کے دوران مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کو مخالف پارٹی کے رہنما نے ’مداری‘ کہہ دیا، اس کے بعد سے لفظ مداری شہ سرخیوں میں آ گیا۔

مداری ڈگڈگی بجاکر مجمع لگاتا ہے اور لوگوں کو تماشہ دکھاکر اپنی روزی روٹی چلاتا ہے۔ مداری کا بڑے پیمانے تذکرہ ہونے کے درمیان ’قومی آواز‘ نے مداریوں کے خیمہ میں جاکر ان کا حال جاننے کی کوشش کی۔

مظفرنگر اور بجنور کی سرحد پر ایک گاؤں واقع ہے جسے دیول کہا جاتا ہے۔ معروف اداکار سنی دیول کے بارے میں تو آپ جانتے ہی ہیں، ان کی براردری بھی دیول ہے۔ پنجاب سے نقل مکانی کر کے کافی سکھ لوگ ایک زمانے میں اترپردیش اور دیگر ریاستوں میں بس گئے تھے۔ دیول اور ملحقہ علاقوں میں بھی کافی تعاداد میں سکھ پہنچے اور اپنے فارم ہاؤس قائم کر لئے۔ دیول پہنچے والے کافی سکھ ’دیول‘ برادری سے وابستہ ہیں اور نام کے ساتھ بھی دیول لگاتے ہیں، لہذا دھیرے دھیرے اس گاؤں کو بھی دیول کہا جانے لگا۔ یہاں کافی تعداد میں مداری بھی رہتے ہیں، اس طبقہ کے لوگوں کو مقامی لوگ ’قلندر‘ کے نام سے بھی جانتے ہیں۔

دیول گاؤں میں یہ مداری آج بھی قدیمی قبائلی خانہ بدوشوں کی طرز پر زندگی گزارتے ہیں۔ ان لوگوں میں قبیلے کا سردار سربراہ ہوتا ہے اور گھر جھونپڑی نما بنے ہوتے ہیں۔ سماجی مسائل یہ لوگ پنچایت کے ذریعہ حل کرتے ہیں اور سردار کا فیصلہ حتمی مانا جاتا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس طبقہ میں مرد جہاں مجمع لگانے کا کام کرتے ہیں وہیں عورتیں گھر کے کاموں کے ساتھ جنگل جاکر جانوروں کے لئے چارہ کا انتظام کرتی ہیں، مطلب یہ کہ یہ طبقہ اپنی عورتوں کو گھر کے اندر قید کر کے نہیں رکھتا۔

دیول میں رہنے والے مداری مذہب اسلام کے پیروکار ہیں۔ یہ گاؤں سکھ اکثریتی علاقہ ہے اور زیادہ تر لوگ پنجابی زبان میں بات چیت کرتے ہیں لہذا یہاں کے مداریوں کی زبان میں بھی پنجابی کا اثر نمایاں ہوتا ہے۔ یہ طبقہ پہلے خانہ بدوش تھا لیکن اب انہوں نے اس علاقے میں مستقل رہائش قائم کر لی ہے۔ مداری خیمہ میں رہنے والے 95 سالہ محمد حسن خانہ بدوشی سے لے کر آج تک کا ایک وسیع تر تجربہ حاصل کئے ہوئے ہیں۔ پرکشش داڑھی، بڑی بڑی آنکھیں، مضبوط بدن اور دم دار آواز کے مالک محمد حسن آج بھی کسی نوجوان کو کشتی میں پٹخنی دینے کا چیلنج دیتے ہیں۔

دیول دہلی سے 140 کلومیٹر دور دہلی-پوڑی قومی شاہراہ پر واقع ہے۔ یہ گاؤں گنگا کے نزدیک گھنے جنگل میں موجود ہے، جسے مقامی لوگ کھولا کہتے ہیں۔ کھولا میں مداری طبقہ کے تقریباً 100 خاندان چھونپڑی ڈال کر رہتے ہیں اور محمد حسن یہاں کے مکھیہ ہیں۔

محمد حسن کی دس مربع فٹ کی بانس سے بنی جھونپڑی میں محض دو چارپائیاں آ سکتی ہیں۔ ایک پرمحمد حسن لیٹے ہوئے تھے اور دوسری پر ’قومی آواز‘ کے نمائندہ نے بیٹھ کر ان سے بات چیت کی۔ محمد حسن گزشتہ دنوں اپنی ٹانگ توڑوا بیٹھے ہیں، ان کے نزدیک بیٹھے ان کے پوتے نے بتایا کہ گھڑسواری کرتے وقت وہ گھوڑے سے گر گئے تھے۔

مداریوں کی 80 چھونپڑیاں محمد حسن کی جھونپڑی جیسی ہی ہیں، بیچ بیچ میں کچھ پکے مکان بھی موجود ہیں۔ محمد حسن کی شخصیت پر کشش ہے اور نظر باندھنے کے فن سے وہ خوب ماہر ہیں۔ بقول حسن ’ہماری قوم نظر باندھنے کے فن کے دم پر ہی روزی روٹی کماتی ہے۔‘ ویسے مداری قوم جو کل تک مجمع لگاکر اور ’نظر باندھ‘ کر روزی روٹی کماتی تھی وہ اب جادوئی انگوٹھیاں اور نگوں کو بیچ کر پیٹ پالتی ہیں۔

محمد حسن نے 60 سال سے زیادہ وقت ’مداری‘ بن کر گزارا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ہزاروں مقامات پر مجمع لگایا لیکن وہ کبھی ایک جگہ پر دو مرتبہ مجمع لگانے نہیں پہنچے۔ محمد حسن ریچھ اور بندروں کو اپنے اشاروں پر نچاتے تھے۔ بستی کے دو چار لوگ ابھی تک بندروں سے تماشہ دکھاتے ہیں لیکن ریچھ سے کرتب دکھانے کا فن اب ختم ہو چکا ہے۔

اس مدرایوں کی بستی کے لئے مینکا گاندھی ایک ویلن کی طرح ہیں۔ مینکا گاندھی نے کھیل تماشوں میں جانوروں کے استعمال پر روک لگانے کے لئے کام کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بستی کے لوگ سیاسی شعور سے دور ہونے کے باوجود مینکا گاندھی سے بخوبی واقف ہیں۔
تصویر قومی آواز / آس محمد
تصویر قومی آواز / آس محمد
مداری بستی کا اکیلا اسکول جانے والا لڑکا سونو عرف شاہنواز

یہاں کی 63 سالہ چھوٹی (خاندان میں سب سے چھوٹی تھیں تو والدین نے یہی نام رکھ دیا) کہتی ہیں کہ وہ مینکا گاندھی کو اپنے بچوں کے منہ سے نوالہ چھیننے کی وجہ سے جانتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ حکومت اگر ان کے روزگار کو بند کرا رہی ہے تو ان کے لئے دوسرے کام کا بندوبست بھی تو ہونا چاہیے۔ چھوٹی سوال کرتی ہیں، ’ہمیں برباد تو حکومت کر رہی ہے، آباد کون کرے گا!‘

حالانکہ محمد حسن کہتے ہیں کہ انہوں نے مینکا گاندھی کے ڈر سے ریچھ اور بندر کا تماشہ دکھانا بند نہیں کیا۔ وہ ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’ایک مرتبہ میں راجستھان کے ایک مسلم راجپوتوں کے گاؤں میں مجمع لگانے گیا تھا۔ کھیل دکھانے کے بعد میں نے آٹا اور پیسے مانگنے شروع کر دیئے۔ اس وقت میرے چہرے پر داڑھی نہیں تھی۔ کسی نے مجھ سے پوچھا کہ تمہارا مذہب کیا ہے تو میں نے کہا اسلام۔ اس پر پوچھنے والے نے کہا، تم جانوروں کو قید کر کے بھیک مانگ کر قوم کی بے عزتی کرتے ہو، خدا کو کیا منھ دکھاؤ گے!‘‘ محمد حسن کہتے ہیں کہ یہ بات ان کے دل پر گہرائی تک اثر کر گئی اور انہوں نے اسلامی تعلیمات کو اپنی زندگی میں اتارنے کا عہد کر لیا۔ محمد حسن نے اس کے بعد داڑھی بڑھا لی اور تبلیغی جماعت میں چلے گئے۔

تصویر قومی آواز / آس محمد
تصویر قومی آواز / آس محمد
دیول کے 95 سالہ محمد حسن جو کبھی ریچھ کا تماشہ دکھایا کرتے تھے

ویسے اس بستی کے کچھ لوگ ہاتھ کی صفائی دکھانے میں بھی ماہر ہیں۔ مثلاً جواہر علی (34) ایک سکے کے دو بنا دیتے ہیں، دراصل وہ سامنے والے کو باتوں میں الجھا کر دوسرا سکا بھی پہلے کے ساتھ ملا دیتے ہیں اور لوگوں کو لگتا ہے کہ انہوں نے ایک سکے کے دو بنا دئے۔ اسی طرح کے اور بھی کرتب وہ دکھاتے ہیں۔ ریچھ والا کھیل تو محمد حسن نے ہی دکھانا بند کر دیا تھا، بندر کا تماشہ دکھانے والے الیاس (43) نے 4 سال پہلے بندروں کا کرتب دکھانا بھی بند کر دیا۔ وہ کہتے ہیں، ’’بندروں سے کچھ لوگوں کے احساسات مجروح ہوتے ہیں۔ 4 سال پہلے میں تماشہ دکھا رہا تھا تو کچھ لوگوں نے ہماری پٹائی کر دی، بس میں نے بندروں کا کھیل دکھانا بند کر دیا۔‘‘

اب زیادہ تر مداری یا تو جادوئی انگوٹھی بیچتے ہیں اور بقیہ کھچر اور گھوڑے بیچنے کا کاروبار کرتے ہیں۔ سنی (27) کہتے ہیں کہ مداریگری ان کے خون میں ہے اس لئے وہ آنگوٹھی کے نگوں کو بھی اسی فن سے بیچتے ہیں۔ ریاض الدین (37) کہتے ہیں، ’’نگ بیچتے ہوئے ہم گاہک کا دل بہلاتے ہیں اور اسے نگوں کی خوبیاں بتاتے ہیں۔ نگ کسی کو پسند آتا ہے تو وہ اسے خرید لیتا ہے، ہمیں اس بات کی تسلی ہے کہ ہم کسی سے بھیک نہیں مانگ رہے ہیں۔‘‘

جانوروں کو نچانے والی ’مداری قوم‘، قسمت کے اشاروں پر ناچنے کو مجبور
مداری بستی کی کوئی لڑکی اسکول میں پڑھنے کے لئے نہیں جاتی، ان کی شادیاں بھی جلدی کر دی جاتی ہے۔ ان لڑکیوں کا زیادہ تر وقت لکڑیاں چننے اور جانوروں کے لئے چارہ لانے میں گزرتا ہے۔

محمد حسن کہتے ہیں، ’’مضبوط بدن والے ہونے کے باوجود مداری بستی کے لوگ محنت مزدوری نہیں کرتے اور بچوں کو اسکول بھی نہیں بھیجتے۔ خواتین بھی مختلف قسم کی زندگی جینے کو مجبور ہیں۔ ہم نے بہت کوشش کی کہ یہاں طرز زندگی بدل جائے لیکن لوگ اپنی روایات کو چھوڑنا نہیں چاہتے۔ مسلمان ہونے کے باوجود کچھ خواتین کو ہی نماز پڑھنی آتی ہے اور لڑکیاں بالکل اسکول نہیں جاتیں۔‘‘

ایک جھونپڑی کے باہر سونو (8) اپنے اسکول بیگ کے ساتھ بیٹھا تھا۔ سہ پہر کے 3 بج چکے تھے لیکن وہ ابھی تک اسکول کی وردی میں تھا۔ سونو کے اسکولی شناختی کارڈ پر شاہنواز نام لکھا ہوا ہے اور پوری بستی میں وہ اکیلا بچہ ہے جو اسکول جاتا ہے۔ اس کے دونوں کانوں میں کنڈل ہیں، دراصل مداری طبقہ کے مرد بھی عورتوں کی طرح زیور پہنتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 18 Nov 2018, 9:09 PM