ڈنمارک: نقاب نہیں اتارنے پر خاتون کو دینا پڑا جرمانہ

ایک خاتون نے دوسری سے اس کا نقاب اتارنے کو کہا اور دونوں میں جھگڑا ہو گیا۔ نقاب نہ اتارنے کی بنا پر پولس نے نقاب پوش خاتون پر جرمانہ عائد کر دیا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ایک خاتون نے دوسری خاتون کا نقاب اتارنے کی کوشش کی ، جس کے بعد ان میں جھگڑا شروع ہو گیا۔ پولس موقع پہنچی اور سی سی ٹی وی فوٹیج معائنہ کیا۔ اس کے بعد نقاب پوش خاتون سے کہا گیا کہ اگر اس نے نقاب نہیں اتار تو اس پر جرمانہ عائد کیا جائے گا۔

ڈنمارک میں اس قانون کی منظوری کے بعد انسانی حقوق کی تنظیموں نے احتجاج بھی کیا تھا۔ یہ قانون ملکی پارلیمان میں اسی سال کی شروعات میں منظور کیا گیا ہے اور یکم اگست کو اسے لاگو کیا گیا ہے۔ پولس نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جھگڑا شروع ہونے کے بعد انہیں وہاں بلایا گیا اور دونوں خواتین پر جرمانے عائد کئے گئے ہیں۔

نقاب پوش خاتون پر نئے قانون کے تحت 1000 کرونر (ڈنمارک کی کرنسی) کا جرمانہ عائد کیا گیا جبکہ دوسری خاتون پر نقص امن کے تحت جرمانہ کیا گیا۔ واضح رہے کہ بدھ کو ڈنمارک کے اس نئے قانون کے منظور ہونے کے بعد مظاہرے دیکھنے میں آئے ہیں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس پر تنقید کی ہے۔

اس قانون میں برقع اور نقاب کا نام سے ذکر نہیں کیا گیا ہے لیکن اس میں درج ہے کہ ’کوئی بھی شخص ایسا کپڑا پہنے جس سے عوام کے سامنے اس کا چہرہ ڈھک جائے، تو وہ عمل قابل سزا ہو گا اور اس پر جرمانہ عائد ہوگا۔‘

قانون کی منظوری کے بعد ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں مظاہرین جمع ہو گئے اور ان میں شامل خواتین نے روایتی برقعے پہنے ہوئے تھے اور کئی نے روایتی اور عارضی نقاب پہنا ہوا تھا۔

چند مسلم خواتین نے کہا ہے کہ وہ اس قانون پر عمل نہیں کریں گی۔ واضح رہے کہ بار بار خلاف ورزی کرنے کی صورت میں 10000 کرونر تک جرمانہ عائد ہو سکتا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اس پابندی کو ’تفریق پر مبنی‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ’نقصان دہ کاروائیوں میں تازہ ترین اضافہ ہے۔‘

گذشتہ سال یورپی کورٹ برائے انسانی حقوق نے بیلجئیم میں بنائے گئے اسی طرح کے قانون کے حق میں فیصلہ دیا تھا اور کہا تھا کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کسی انفرادی شخص کی مذہبی اظہار رائے سے زیادہ ضروری ہے۔ یورپ کے دیگر ممالک جیسے فرانس، آسٹریا، بلغاریہ اور جرمنی کی ریاست باوریا میں بھی اس سے ملتے جلتے قانون نافذ ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */