شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ کا مزار بدحالی کا شکار

ذوقؔ کے مزار پر اب تالا لگا رہتا ہے جس مقام پر ذوقؔ کا مقبرہ ہے وہاں تک جانے کے لیے تنگ گلیوں سے گزرنا پڑتا ہے اس کے علاوہ گندگی کا انبار اور نالیوں کا پانی بھی جمع ہوا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

محمد تسلیم

نئی دہلی: اردو والوں کے ساتھ سوتیلا برتاو کیا جاتا رہا ہے دوسری جانب اب تاریخی اہمیت کے حامل اردو کے مشہور و معروف شاعر شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ کے مزار کے ساتھ بھی یہ بات دیکھنے کو مل رہی ہے۔

دہلی کے حلقہ بلیماران کے نبی کریم علاقہ میں واقع شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ کا مزار آثار قدیمہ کی زیر نگرانی میں آنے کے باوجود بے توجہی کا شکار ہورہا ہے۔ واضح رہے کہ شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ اپنے زمانے کے مقبول ترین شاعروں میں تھے۔ دلّی میں تو ان کے نام اور ان کی شاعری کا ڈنکا بجتا تھا، وہ آخری مغل تاجدار کے استاد سخن تھے۔ ظفر کی حکمرانی اگر اسے حکمرانی کہا جاسکے، قلعہ معلّی کی چار دیواری تک محدود تھی لیکن ان کی ہر دلعزیزی کا سکّہ اس چار دیواری کے باہر پورے شہر میں چلتا تھا۔ ظفرؔ کی اس ہر دل عزیزی کا سبب شاہانہ شان و شوکت نہیں بلکہ ان کی کچھ شخصی خوبیاں تھیں۔ شاعری سے انھیں اپنے زمانہ ولی عہدی ہی سے گہرا لگاؤ تھا اور ذوقؔ کی ان تک رسائی تھی۔ ولی عہد کے زمانے میں ذوقؔ نے مغلیہ سلطنت کی شان میں جو قصیدے لکھے اس پر ذوق کو بہادر شاہ ظفرؔ نے خاقانی ہند کے خطاب سے نوازا اور جب بہادر شاہ ظفر بادشاہ بنے تو انھوں نے اپنے دربار کا ملک الشعرا مقر کردیا تھا۔ اس زمانے میں ارض دکن میں شعرا کی قدر افزائی کا بڑا شہرہ تھا جس سے متاثر ہو کر دور دور کے شاعر ادھر کا رخ کر رہے تھے، ذوقؔ کے استاد شاہ نصیر نے بھی دلّی کو خیر باد کہا اور قلعہ معلّی سے اپنا تعلق توڑ کر دکن کی راہ لی۔ دکن میں قدر سخن کا یہ شہرہ ذوقؔ تک بھی پہنچا

لیکن انھوں نے دلّی کی گلیوں کو چھو ڑ کر وہاں جانا گوارا نہ کیا۔

ان کا مشہور مقطع ہے :

ان دنوں گرچہ دکن میں ہے بڑی قدرِ سخن

کون جائے ذوقؔ پر دلّی کی گلیا ں چھوڑ کر

جس شاعر کو اپنے دور میں اتنی عزت اور مقبولیت و شہر ت ملی آج ان کے مزار کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ حیر ت کی بات تو یہ کہ نبی کریم علاقہ کے بیش تر لوگ یہ تک نہیں جانتے کہ ذوق کون ہیں اور ان کا مزار ہماری ہی کالونی میں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں جو لوگ رہائش پذیر ہیں وہ دہلی سے باہر کے ہیں، اور یہ لوگ کاروبار کی غرض سے یہاں رہ رہے ہیں۔

قومی آواز کے نمائندہ نے جب ذوقؔ کے مزار کے بارے میں پوچھا کہ مزار کہاں ہے تو کافی لوگ بغلیں جھانکتے ہوئے نظر آئے، اور ان کے منہ سے پتہ نہیں کا جواب سننے کو ملا لیکن جب نمائندہ نے پرانے شوچالیہ کہا تو ان کی زبان حرکت میں آئی تب جاکر انھو ں نے پتہ بتایا۔

اس کی ایک اور وجہ یہ ہے نبی کریم میں جب داخل ہوتے ہیں تو کوئی بھی بورڈ ذوقؔ کے بارے میں نہیں ہے جو یہ بتا سکے کہ مزار جانے کا راستہ کدھر سے ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ذوقؔ کے مزار پر اب تالا لگا رہتا ہے جس مقام پر ذوقؔ کا مقبرہ ہے وہاں تک جانے کے لیے تنگ گلیوں سے گزرنا پڑتا ہے اس کے علاوہ گندگی کا انبار اور نالیوں کا پانی بھی جمع ہے اور مزار کے اطراف میں کوڑے کرکٹ کا بھی انبار لگا ہوا ہے جو تشویش ناک بات ہے۔

اس سلسلہ میں ’قومی آواز‘ کے نمائندہ نے ذاکر حسین دہلی کالج کے شعبہ اردوکے سبکدوش پروفیسر عبدلعزیز جو دہلی سے تعلق رکھتے ہیں اور یہاں کی تاریخ سے کافی اچھی واقفیت بھی رکھتے ہیں۔

انھوں نے بتایا ذوقؔ شاہ ظفر کے استاد اور قلعہ معلّی کے قریب تھے ان کے شعری اسلوب میں قلعہ کی زبان محاورہ روز مرہ کثرت سے محفوظ ہے۔ مزار ذوقؔ تو کب کا منہدم کردیا گیا تھا لیکن خلیق انجم نے مزار کی جگہ دریافت کی۔ مزار کی جگہ پر پہلے بیت الخلاء تعمیر تھا، مدتوں عدالتوں میں مقدمہ لڑتے رہے۔ آخر کا ر مصرفیات کی وجہ سے فیرز بخت کے

حوالے کیا، مقدمہ کی پیروی اور نگرانی خلیق انجم کرتے رہے۔ اور عدالت کے حکم سے بیت الخلاء توڑ کر اس مقام پر ذوقؔ کے مزار کی باز یابی ہوئی، اب اس کی خراب حالت ہے تو اردو اکیڈمی یا انجمن ترقی اردو کو ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔ اس سلسلہ میں قومی آواز کے نمائندہ نے نبی کریم علاقہ کے ممبر اسمبلی اور دہلی حکومت وزیر برائے خوراک و رسد عمران حسین سے اس سلسلہ میں بات کرنے کی کافی کوششیں کی مگر بات نہیں ہوسکی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔