دہلی فسادات: عمر خالد اور شرجیل امام کی درخواست ضمانت پر سپریم کورٹ میں آج سماعت

دہلی فسادات کی سازش کے معاملہ میں عمر خالد، شرجیل امام، میران حیدر اور گلفشاں فاطمہ کی ضمانت عرضیوں پر آج سپریم کورٹ میں سماعت ہوگی۔ چاروں پر یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج ہے

سپریم کورٹ، تصویر آئی اے این ایس
i
user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی۔ سپریم کورٹ جمعہ کو 2020 دہلی فسادات کی سازش سے متعلق معاملہ میں گرفتار جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے سابق طالب علم عمر خالد اور شرجیل امام کے علاوہ میران حیدر اور گلفشاں فاطمہ کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کرے گا۔ چاروں ملزمین نے دہلی ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو چیلنج کیا ہے جس میں ان کی ضمانت کی درخواستوں کو مسترد کر دیا گیا تھا۔

دہلی پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ 2020 میں دہلی میں فرقہ وارانہ تشدد کوئی اچانک بھڑکی ہوئی واردات نہیں بلکہ ایک منصوبہ بند سازش تھی۔ یہ تشدد اس وقت بھڑکا تھا جب شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف ملک بھر میں بڑے پیمانے پر احتجاج جاری تھے۔ ان فسادات میں پچاس سے زیادہ افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے تھے۔

ملزمین کے خلاف غیر قانونی سرگرمیاں (انسداد) قانون، یعنی یو اے پی اے اور تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج ہے۔ پولیس کا الزام ہے کہ ان لوگوں نے احتجاج کی آڑ میں فرقہ وارانہ تشدد کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل کیا۔

سپریم کورٹ کی دو الگ الگ بینچیں آج ان عرضیوں پر غور کریں گی۔ جسٹس اروند کمار اور جسٹس این وی انجاریا کی بنچ شرجیل امام، عمر خالد اور گلفشاں فاطمہ کی درخواستوں کی سماعت کرے گی، جبکہ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس کے ونود چندرن پر مشتمل بینچ میران حیدر کی ضمانت عرضی پر سماعت کرے گی۔


شرجیل امام کو 28 جنوری 2020 کو بہار کے جہان آباد سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اشتعال انگیز تقاریر کیں جن کے بعد ان کے خلاف بغاوت اور بعد میں یو اے پی اے کے تحت مقدمہ قائم ہوا۔ وہ تب سے عدالتی حراست میں ہیں۔

عمر خالد کے معاملے میں دہلی ہائی کورٹ نے ستمبر 2022 میں ان کی ضمانت عرضی مسترد کر دی تھی۔ اس فیصلے کے خلاف خالد نے حال ہی میں سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ ان کے وکلاء کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف کوئی براہِ راست ثبوت نہیں ہے اور انہیں محض احتجاج میں حصہ لینے کی بنیاد پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

گلفشاں فاطمہ اور میران حیدر بھی یو اے پی اے کے تحت گرفتار ہیں۔ دونوں پر الزام ہے کہ انہوں نے مختلف احتجاجی مظاہروں میں متحرک کردار ادا کیا اور مبینہ طور پر سازش کا حصہ بنے۔

یہ معاملہ گزشتہ تین برسوں سے زیرِ سماعت ہے اور ملزمین طویل عرصے سے جیل میں ہیں۔ قانونی ماہرین کے مطابق ضمانت کے سوال پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آئندہ کے کئی مقدمات کے لیے اہم نظیر ثابت ہو سکتا ہے، خاص طور پر جب معاملہ یو اے پی اے جیسے سخت قانون کے تحت درج ہو۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔