دہلی فساد معاملہ: عمر خالد اور شرجیل امام کی ضمانت پر سپریم کورٹ نے فیصلہ رکھا محفوظ

وکیل سدھارتھ نے کہا کہ ’شرجیل کو فساد سے کچھ روز قبل ہی 28 جنوری 2020 کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ایسے میں تقاریر کی بنیاد پر فسادات کے متعلق کسی بھی طرح کی مجرمانہ سازش کا الزام عائد نہیں کیا جا سکتا۔‘

<div class="paragraphs"><p>عمر خالد اور شرجیل امام، تصویر سوشل میڈیا</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

دہلی فساد سازش معاملے میں عمر خالد، شرجیل امام اور گلفشاں فاطمہ سمیت دیگر کی ضمانت عرضیوں پر سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ رکھ لیا ہے۔ جسٹس اروند کمار اور جسٹن این وی انجریا کی بنچ نے دہلی ہائی کورٹ کے 2 ستمبر کو ضمانت خارج کرنے کے حکم کے خلاف سماعت مکمل کر لی۔ عرضی گزاروں نے 5 سال سے زائد کی حراست، ٹرائل میں تاخیر اور تشدد کے لیے اکسانے کے ثبوت نہ ہونے کی دلیل دی ہے۔

دوسری طرف دہلی پولیس نے دہلی فسادات کو تبدیلیٔ حکومت اور معیشت کو نقصان پہنچانے کے مقصد سے بنی ملک گیر ’پین انڈیا‘ سازش قرار دیا۔ عدالت میں اپنی بات رکھتے ہوئے پولیس نے واٹس ایپ گروپ، ڈی پی ایس جی اور جامعہ اویرنس کیمپین ٹیم کا حوالہ دیا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ تاخیر عرضی گزاروں کی وجہ سے ہوئی ہے، تعاون کرنے پر ٹرائل 2 سال میں مکمل ہو سکتا ہے۔


اس سے قبل کی سماعت میں شرجیل امام نے کہا تھا کہ وہ کوئی دہشت گرد نہیں ہیں۔ شرجیل امام نے بغیر کسی مکمل سماعت یا سزا کے بغیر خطرناک تعلیم یافتہ دہشت گرد قرار دیے جانے پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ جبکہ عمر خالد نے کہا تھا کہ جب فساد ہوئے تھے تو وہ دہلی میں ہی نہیں تھے۔

عدالت میں شرجیل امام کی جانب سے پیش ہوئے وکیل سدھارتھ دوے نے کہا کہ ’’میں کہنا چاہوں گا کہ میں دہشت گرد نہیں ہوں، جیسا کہ پولیس نے میرے بارے میں کہا ہے۔ میں کوئی ملک مخالف نہیں ہوں، جیسا ریاست کی جانب سے کہا گیا ہے۔ میں پیدائشی طور پر اس ملک کا شہری ہوں۔ اب تک مجھے کسی بھی جرم کے لیے قصوروار نہیں ٹھہرایا گیا ہے۔‘‘


جسٹس اروند کمار اور جسٹس این وی انجاریہ کی بنچ کے سامنے دلیل پیش کرتے ہوئے وکیل سدھارتھ دوے نے کہا کہ ’’شرجیل امام کو فساد سے کچھ روز قبل ہی 28 جنوری 2020 کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ایسے میں تقریروں کی بنیاد پر فسادات کے متعلق کسی بھی طرح کی مجرمانہ سازش کا الزام عائد نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے خلاف مارچ 2020 میں ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔